بعض لوگ امام مہدى اور عيسى بن مريم عليہ السلام كے نزول والى احاديث كو اسلام كے ليے كام كرنے كو ترك كرنے كا مدعا سمجھتے ہيں، اور امام مہدى كے خروج يا عيسى بن مريم عليہ السلام كے نزول كا انتظار كرتے ہيں حتى كہ اسلام اور مسلمانوں كى عزت واپس پلٹے، اس فہم كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
مھدى كے خروج اور عيسى عليہ السلام كے نزول والى احاديث عمل ترك كرنے كا سبب نہيں بنتيں
سوال: 21221
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امت اسلاميہ جس پسماندہ حالت تك پہنچ چكى ہے، اسے ديكھ كر پيشانى جھك جاتى ہے، ان حالات كى اصلاح كرنا ہر ايك مسلمان پر فرض ہے اور وہ اسے درست كرنے كا ذمہ دار ہے، ليكن يہ ہے كہ كچھ مسلمان اميد اور آروز كو كافى سمجھ كر اور اميد پر اكتفاء كرتے ہوئے عمل سے ہى ہاتھ روك بيٹھے ہيں اور امت مسلمہ جس حالت ميں ہو چكى ہے اس كى اصلاح كرنے سے روگردانى كرتے ہوئے اصلاحى عمل سے دور بھاگتے ہيں، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ اس كا سبب ہم سے پہلے تھے، اور ہمارے بعد آنے والے اس كى اصلاح كريں گے!! اور اسى كو مدنظر ركھ كر اللہ تعالى كے دين كو پھيلانے اور نافذ كرنے سے يہ كہتے ہوئے توقف اختيار كرتے ہيں، يہ كام امام مہدى كريں گے.
يہ تو شرعى اسباب كو معطل كر كے تمناؤں اور اميدوں اور آروزؤں كى طرف دوڑ ہے، حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
حقيقت حال نہ تو تمہارى آرزو كے مطابق ہے، اور نہ ہى اہل كتاب كى اميدوں پر موقوف ہے، جو برا عمل كرے گا وہ اس كى سزا پائے گا، اور وہ اپنے ليے اللہ تعالى كے علاوہ كوئى بھى معاون و مددگار نہيں پائے گا النساء ( 123 ).
جس منفى اثر سے آج كچھ مسلمان دوچار ہيں، ہو ہى نہيں سكتا كہ نصوص شرعيہ اس پر دلالت كرتى ہوں، بلكہ يہ تو سوء فہم اور سستى و كاہلى اور ذمہ دارى كے احساس سے دور بھاگنا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى نے تو مسلمانوں كو اس دين پر عمل پيرا ہونے اور دعوت الى اللہ اور كفار كے ساتھ جنگ و جدال اور انہيں حكمت اور بہتر اسلوب كے ساتھ وعظ و نصيحت كرنے، اور زمين ميں شرك ختم ہونے تك ان كے ساتھ لڑنے كا حكم ديا ہے.
اللہ مالك الملك كا فرمان ہے:
اور تم ان ( كافروں ) سے لڑائى كرو حتى كہ فتنہ اور شرك باقى ہى نہ رہے، اور سارے كا سارا دين اللہ تعالى كا ہو جائے، اگر تو وہ باز آجائيں تو جو كچھ وہ كر رہے ہيں اللہ تعالى اسے ديكھ رہا ہےالانفال ( 39 ).
ابن كثير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ وتعالى نے كفار كے ساتھ اس وقت تك جنگ كرنے اور لڑنے كا حكم ديا ہے جب تك فتنہ يعنى شرك باقى رہے، اور سارا دين اللہ تعالى كا ہى ہو كر رہ جائے، يعنى اللہ تعالى كا دين ہى باقى سارے باطل اديان پر غالب ہو جائے. اھـ
اور يہ حكم كسى خاص زمانے اور دور كے ساتھ مخصوص نہيں، بلكہ ہر زمانے اور دور اور ہر جگہ ميں مسلمان اس حكم پر مامور ہيں.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ دين اسلام كى سربلندى كے ليے كام كرنا اور روئے زمين پر اسے غالب كرنے كے ليے مسلمانوں كو جدوجھد اور كوشش كرنا ہو گى، اور اس تك لے جانے والے اسباب اور وسائل بھى استعمال كرنا ہونگے.
اور بعض لوگ امام مہدى كے خروج يا عيسى بن مريم عليہ السلام كے نزول والى احاديث سے غلط مراد اور سمجھ لے كر توكل كرتے ہوئے عمل ترك كر بيٹھتے ہيں، اور بيٹھ كر امام مہدى كے خروج يا عيسى عليہ السلام كے نزول كا انتظار كرنا شروع كر ديتے، اور دعوت الى اللہ اور اعلاء كلمہ كا كام ترك كر بيٹھتے ہيں….
حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اسباب پر حاصل كرنے اور زمين ميں كوشش كرنے اور عمل كرنے كا حكم ديا ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو! اپنا بچاؤ كا سامان لے لو، اور پھر گروہ گروہ بن كر كوچ كرو، يا سب اكٹھے ہو كر نكل كھڑے ہوالنساء ( 71 ).
تم ان كے مقابلے كے ليے اپنى طاقت بھر قوت كى تيارى كرو، اور گھوڑوں كے تيار ركھنے كى كہ تم اس سے اللہ تعالى اور اپنے دشمنوں كو خوفزدہ ركھ سكوالانفال ( 60 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
وہ ذات جس نے تمہارے ليے زمين كو پست و مطيع كر ديا تا كہ تم اس كى راہوں ميں چلتے پھرتے رہو، اور اللہ تعالى كى روزياں كھاؤ( پيو ) اسى كى طرف جى كر اٹھ كھڑا ہونا ہے الملك ( 15 ).
اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:
سبقت كرنے والوں كواسى ميں سبقت لے جانى چاہيے المطففين ( 26 ).
اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
ايسى كاميابى حاصل كرنے كے ليے عمل كرنے والوں كو عمل كرنا چاہيےالصافات ( 61 ).
اور اللہ جل جلالہ كا فرمان ہے:
اور جس كا ارادہ آخرت كا ہو اور اس نے اس كے ليے حقيقى كوشش بھى كى ہو، اور وہ ہو بھى ايمان والا تو يہى لوگ ہيں جن كى كوشش كى اللہ تعالى كے ہاں پورى قدردانى كى جائے گى الاسراء ( 19 ).
اور رب ذوالجلال كا فرمان ہے:
اور اپنے ساتھ زاد راہ لے ليا كرو، اور سب سے بہتر توشہ اللہ كا ڈر ہے البقرۃ ( 197 ).
اور اللہ تعالى نے تو مريم عليہ السلام كو بھى اس وقت اسباب پكڑنے كا حكم ديا تھا جب وہ كمزور ترين مرحلہ ميں تھى.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور اس كھجور كے تنے كو اپنى طرف ہلاؤ يہ تيرے سامنے تروتازہ اور پكى ہوئى كھجوريں گرا دے گا مريم ( 25 ).
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى ہر معاملہ اور كام كى تيارى اور پلاننگ كرتے تھے، اور اس كا باقاعدہ نقشہ تيار كرتے جيسا كہ ہجرت كے سفر ميں پيش آيا كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے شروع سے ہى سوارياں، راستہ كى راہنمائى كرنے والا گائڈ، اور رفيق سفر بھى تيار كر ركھا تھا، اور چھپنے كے ليے جگہ كا بھى انتخاب كيا تا كہ تلاش كرنے والے تلاش ميں ٹھنڈے پڑ جائيں، اور اس سارے پلان كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے راز دارى كے احاطہ ميں گھيرے ركھا.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى سيرت اور ان كے غزوات اور جنگيں بھى اسى طرح تھيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كى تربيت بھى اسى نہج پر كى تھى، لھذا جب وہ دشمن كے آمنے سامنے ہوتے تو پورى طرح مسلح اور تيار ہوتے.
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فتح مكہ كے موقع پر مكہ مكرمہ ميں داخل ہوئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے سر مبارك پر خود ( ہيلمٹ ) پہنا ہوا تھا، حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان تو يہ ہے:
اور اللہ تعالى آپ كو لوگوں سے محفوظ ركھےگا المائدۃ ( 67 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب بھى حج يا عمرہ اور جھاد كے ليے نكلتے تو اپنے ساتھ زاد راہ اور ضروريات سفر اور سوارياں بھى ليتے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” نفع دينے والى چيز كى حرص ركھو، اور اللہ تعالى سےمدد طلب كرو اور اللہ تعالى كى اطاعت ميں سستى نہ كرو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2664 ).
اور ہميں ذرا اس حالت كے متعلق سوچنا اورخيال كرنا چاہيے كہ اگر ہم سے پہلے لوگ بھى مہدى كے نكلنے كا انتظار كرتے رہتے اور كفار كے خلاف نہ لڑتے اور دعوت الى اللہ كا كام نہ كرتے تو آج دعوت و تبليغ اور امت كى كيا حالت ہوتى؟
اور كيا وہ تتاريوں اور صليبيوں كو شكست سے دوچار كر سكتے، اور كيا وہ قسطنطنيہ كو فتح كر سكتے تھے؟
امام مہدى اور عيسى عليہ السلام كے نزول ميں وارد ہونے والى شرعى نصوص كى غلط تاويل اور اس كى مراد اور معنى كى غلط سمجھ كے خلاف بہت سے علماء كرام نے بات بھى كى ہے، اور مبلغين اور كالم نگاروں نے بھى اس كا توڑ كيا ہے.
شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” مسلمانوں كے جائز نہيں كہ وہ اسلام كے ليے كام كرنا ترك كرديں، اور امام مہدى كے خروج اور عيسى عليہ السلام كے نزول كے انتظار ميں وہ اسلامى مملكت اور حكومت قائم ہى نہ كريں، اس وہم يا نااميدى كى بنا پر كہ يہ كام ان دونوں كے آنے سے قبل ممكن ہى نہيں، بلكہ يہ وہم باطل ہے، اور معطل كردينے والى نااميدى ہے.
اس ليے كہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ہميں نہيں بتايا كہ اسلام نہيں پلٹےگا، اور ان كے دور كے علاوہ اسلام كى حكمرانى ہو ہى نہيں سكتى، بلكہ ہميں بتايا گيا ہے كہ اسلام دنيا ميں غالب ہو كر رہے گا، لھذا يہ جائز ہے كہ اگر مسلمان اسلام كو غالب كرنے والے اسباب پر عمل كريں تو امام مہدى كے خروج اور عيسى عليہ السلام كے نزول سے قبل ہى اسلام غالب ہو سكتا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اگر تم اللہ تعالى ( كے دين ) كى مدد و نصرت كرو گے تو اللہ تعالى بھى تمہارى مدد و نصرت فرمائے گا، اور تمہارے قدموں كو بھى ثابت قدم ركھےگا محمد ( 7 ).
اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:
اور اللہ تعالى يقينا اس كى مدد و نصرت فرماتا ہے جو اس كى مدد كرے الحج ( 40 ).
عيسى عليہ السلام كے نزول وغيرہ كے متعلق وارد شدہ احاديث پر ايمان لانا واجب اور ضرورى ہے، اور عمل ترك كرنے كا وہم ڈالنے والے لوگوں كے وہم كو بھى رد كرنا واجب ہے، اور ہر دور اور جگہ ميں اس تيارى كرنا ضرورى ہے. اھـ
اور پروفيسر عبد العزيز مصطفى كہتے ہيں:
كفار كے ساتھ جھاد كرنا شرعى طور پر واجب اور محكم ہے منسوخ نہيں، چاہے وہ كافر كوئى بھى ہو، اور كہيں بھى پايا جائے، اور جس زمانے كا بھى كافر ہو اس كے خلاف جھاد كرنا واجب ہے، اور يہ ايك ايسى اسلامى حقيقت ہے جو ثابت ہے، اور يہ جھاد اپنى شروط، اور قواعد و ضوابط اور احكام كے ساتھ واجب ہوتا ہے، نہ تو اس جھاد كى شروط ميں كوئى ايسى شرط ہے جس ميں كہ جھاد كو غيب كے ظاہر ہونے تك مؤخر كرديا جائے، اور نہ ہى كوئى قاعدہ اور ضابطہ ہى ايسا ملتا ہے.
پہلے دور كے مسلمان تو ايسا نہيں سمجھے، اور نہ ہى انہوں نے ايسا كام كيا، بلكہ جب انہيں يہ بتايا گيا كہ عنقريب اللہ تعالى ان كى تلواروں كے ساتھ كسرى كى بادشاہت اور حكمرانى ختم كر كے ركھ دے گا تو اس خبر كے پورا ہونے كے انتظار ميں بزدل بن كر گھروں ميں چھپ كر نہيں بيٹھے، اور انہوں نے بغير كسى اقدام كيے اس واقع كے پورا ہونے كا انتظار نہيں كيا، اور نہ ہى اس كے ليے انہوں نے جدوجھد كرنا ترك كى.
نہيں، بلكہ انہوں نے اس معاملہ كى تيارى كى اور اس معاملہ كو سنجيدگى كے ساتھ ليا، حتى كہ مدد و نصرت نازل ہوئى، اور شرعى حكم تقدير كے حكم كے مطابق ہوا….
ليكن آج كے كچھ مسلمان كہتے ہيں: نہيں.. يہوديوں سے اس وقت تك جھاد نہيں جب تك دجال نہيں نكلتا.. لگتا ہے كہ دنيا ميں يہ بھى دجال كے فتنوں ميں ايك فتنہ ہے.
يہ كمزور اور بودى قسم كى كلام بہت سے مسلمان نوجوانوں ميں پھيل چكى ہے، جس كى بنا پر انہوں نے بيت المقدس كے سلسلہ ميں اپنے كندھوں پر عائد ہونے والى ذمہ دارى اتار پھينكى ہے، جيسا كہ اس سے بھى كمزور اور غلط قسم كى كلام كے جھانسے ميں آئے ہوئے ہيں كہ اسلامى حكومت اور حلافت اس وقت تك قائم نہيں ہو سكتى جب تك امام مہدى كا خروج نہيں ہوتا!!
اس كلام كى رٹ لگانے اور اس كى ترويج كرنے والوں پرتعجب ہوتا ہے، گويا كہ وہ اپنى زبان حال ميں يہوديوں كو يہ كہہ رہے ہوں: تم اپنے دشمنوں پر اور سختى كرو..
اور نصارى كو يہ كہہ رہے ہوں كہ تم اپنى سركشى اور بغاوت جارى ركھو…
اور مسلمانوں سے يہ كہہ رہے ہوں كہ تم آپس ميں تفرقہ اور اختلاف جارى ركھو، اور آپس ميں تنازع اور بزدلى قائم ركھو، حتى كہ تمہارے پاس امام مہدى آجائيں.
مجھے معلوم نہيں كہ وہ اس گمراہى اور پھسلن ميں كونسى دليل اور حجت كے ساتھ جا پڑے ہيں، ان كا وہم اور گمان ہے كہ امام مہدى ايسى قوم كے پاس آئےگا جو بيٹھى ہوئى ہے، يا پھر بزدلوں كى مدد كرے گا” اھـ
ديكھيں: كتاب ” المھدى و فقہ اشراط الساعۃ تاليف: شيخ محمد بن اسماعيل ( 710 – 722 ).
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو بہتر طريقہ سے ان كے دين اسلام كى طرف پلٹنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب