كيا آپ اختصار كے ساتھ جعالۃ كے احكام بتا سكتے ہيں ؟
جعالہ ( انعام ) كے احكام
سوال: 21239
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جعالۃ كو الجعل اور جعيلۃ كا نام بھي ديا جاتا ہے، يہ وہ ( انعام اور رقم وغيرہ ) ہے جو كسى كام كرنے پر انسان كو دى جائے، مثلا كوئى يہ كہے كہ جس نے بھى اس طرح كيا؛ اسے اتنى رقم دى جائے گى؛ يعنى جو شخص كوئى معلوم كام كرے تو اس كے ليے معلوم رقم ركھى جائے؛ مثلا ديوار كى تعمير كرنے پر.
اس كے جواز كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو شخص اسے لائے گا اسے ايك اونٹ كا بوجھ ديا جائے گا، اور ميں اس كا ضامن ہوں يوسف ( 72 )
يعنى جو كوئى بھى بادشاہ كا پيالے چورى كرنے والے كے متعلق بتائے گا اسے ايك اونٹ بوجھ ديا جائے گا، اور يہ انعام اور جعل ہے، تو اس طرح جعالۃ كے جواز پر يہ آيت دلالت كر رہى ہے.
اور سنت نبويہ ميں اس كى دليل وہ حديث ہے جس ميں ايك ڈسے جانے والے سردار كا قصہ مذكور ہے، يہ حديث صحيحين وغيرہ ميں ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے:
ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے ايك عرب قبيلہ كے پاس پڑاؤ كيا اور ان سے مہمان نوازى كرنے كا كہا، ليكن اس قبيلہ نے مہمان نوازى كرنے سے انكار كر ديا، ان كے سردار كو كسى چيز سے ڈس ليا تو انہوں نے ہر قسم كے علاج كى كوشش كى ليكن افاقہ نہ ہوا تو وہ لوگ ان كے پاس آئے اور كہنے لگے:
كيا تمہارے پاس كچھ ہے؟ تو ايك صحابى نے كہا اللہ كى قسم ميں دم كرونگا، ليكن اللہ كى قسم ہم نے آپ لوگوں سے مہمان نوازى كرنے كا كہا تو آپ نے انكار كر ديا، اب ميں اس وقت تك دم نہيں كرونگا جب تك تم ہمارے ليے كوئى چيز ( اس كا بدلہ ) مقرر نہيں كرتے، تو انہوں نے ان كے ساتھ بكريوں كے ايك ريوڑ پر مصالحت كى، اس صحابى نے جا كر اس سردار پر سورۃ الفاتحہ ( الحمد للہ رب العالمين ) پڑھ كر پھونك مارى؛ تو وہ سردار بالكل نشيط اور چست اور ٹھيك ٹھاك ہو گيا، تو انہوں نے وعدہ پورے كرتے ہوئے انہيں بدلے ميں ايك ريوڑ بكرياں ديں؛ جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس واپس پہنچے اور اس واقعہ كو ذكر كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم نے ٹھيك كيا، تقسيم كرو، اور اپنے ساتھ ميرا حصہ بھى ركھنا”
صحيح بخارى كتاب الاجارۃ حديث نمبر ( 2276 ).
لھذا جس نے بھى انعام يا بدلا ركھے جانے كے علم كے بعد ايسا كام كيا جس پر انعام ركھا گيا ہے؛ تو وہ اس انعام اور بدلے كا مستحق ٹھرے گا، كيونكہ كام مكمل ہونے پر وہ معاہدہ استقرار پا چكا ہے، چاہے وہ كام كچھ لوگ مل كر بھى كريں؛ تو وہ اس رقم كو برابرى كے ساتھ آپس ميں تقسيم كرينگے؛ كيونكہ وہ سب اس كام ميں شريك تھےجس كى بنا پر انہيں يہ معاوضہ ملا ہے لھذا وہ معاوضے ميں بھى شريك ہونگے.
اور اگر اس نے عوض يا انعام كا علم ہونے سے قبل وہ كام كيا؛ تو اس رقم كا مستحق نہيں؛ كيونكہ اس نے اپنے نفس كا حق ساقط كر ليا ہے، اور اگر معاوضہ ركھنے والے نے كام شروع كرنے سے قبل ہى فسخ كر ديا؛ تو كام كرنے والے كو اس كے عمل كى اجرت اور مزدورى دى جائے گى، كيونكہ اس نے معاوضہ پر كام كيا ہے ليكن اسے معاوضہ نہيں ملا.
جعالہ ( انعام يا معاوضہ ) كئى مسائل ميں اجارۃ ( اجرت اور مزدورى ) سے مختلف ہے، جو درج ذيل ہيں:
1 – جعالہ صحيح ہونے كے ليے يہ شرط نہيں كہ جس كام پر وہ انعام ركھا گيا ہے وہ كام معلوم ہو، ليكن اجارہ يعنى اجرت اور مزدورى كے صحيح ہونے كے ليے كام معلوم ہونے كى شرط ہے.
2 – جعالہ كے صحيح ہونے كے ليے كام كى مدت كا معلوم ہونا شرط نہيں، ليكن اس كے برعكس اجارہ ميں كام كى مدت معلوم ہونى شرط ہے.
3 – جعالہ ميں كام اورمدت جمع كرنى جائز ہے، مثلا يہ كہےكہ: جس نے يہ كپڑا ايك دن ميں سلائى كيا تو اسے يہ ملے گا، لھذا اگر اس نے ايك دن ميں سلائى كر لى تو وہ اس انعام اور معاوضے كا حقدار ہے، وگرنہ نہيں، ليكن اس كے برعكس اجارہ ميں كام اور مدت كے مابين جمع صحيح نہيں.
4 – جعالہ ميں كام كرنے والے پر كام كرنا لازم نہيں، ليكن اجارہ ميں كام كرنے والے پر كام كا التزام ہوتا ہے.
5 – جعالہ ايسا معاہدہ اور عقد ہے جس ميں طرفين كے ليے دوسرے فريق كى اجازت كے بغير عقد فسخ كرنا جائز ہے، ليكن اس كے برعكس اجارہ ميں عقد لازم ہوتا ہے، اور فريقين ميں سے كسى ايك كے ليے دوسرے كى رضامندى اور اجازت كے بغير فسخ كرنا جائز نہيں.
6 – فقھاء رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ: جس نے بھى كسى دوسرے كے ليے بغير عوض اور كام والے كى اجازت كے بغير كام كيا تو وہ كسى بھى چيز كا مستحق نہيں، كيونكہ اس نے منفعت بغير عوض كے خرچ كى، اور اس ليے بھى كہ انسان كو ايسى چيز لازم نہيں جس كا اس نے التزام نہيں كيا؛ ليكن اس سے دو چيزيں مستثنى ہيں:
پہلى چيز:
اگر كام كرنے والے نے اپنے آپ كو اجرت پر كام كے ليے تيار كيا ہو، مثلا دلال، اور بار بردار وغيرہ؛ اگر اس نے اجازت كے ساتھ كام كيا تو اس پر عرف عام كى دلالت كى بنا پر وہ اجرت كا مستحق ٹھرے گا، اور جس نے اپنے آپ كو كام كے ليے تيار نہ كيا ہو تو وہ كسى چيز كا مستحق نہيں، اگرچہ اسے اجازت بھى دے دى جائے، ليكن شرط كے ساتھ.
دوسرى چيز:
جو شخص كسى دوسرے كا مال ہلاك ہونے سے بچائے؛ مثلا اسے سمندر اور دريا سے نكالے، يا جلنے سے بچائے، يا وہ سامان تباہ ہونے والى جگہ ميں پائے اگر اسے چھوڑ ديا جائے تو وہ مال ضائع ہو جائے؛ تو اسے اجرت مثل ( يعنى اس جيسے كام كى مثل ) ملے گى، اگرچہ اسے مالك نے اجازت نہ بھى دى ہو، كيونكہ مالك كى يہ چيز تباہ ہونے كا خدشہ تھا، اور اس ليے بھى كہ اس كى اجرت دينے ميں اس جيسے كام كرنے كى ترغيب بھى ہے، كہ مال تباہ ہونے سے بچايا جائے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” جس نے كسى دوسرے كا مال تباہ ہونے سے بچايا اسے اجرت مثل ملے گى، اور اگرچہ شرط كے بغير ہى ہو، صحيح قول يہى ہے، اور امام احمد وغيرہ سے يہى بيان كيا گيا ہے”.
اور علامہ ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” جس نے بھى كسى دوسرے كے مال ميں بغير اجازت كام كيا تا كہ وہ اس كام كے ساتھ دوسرے تك پہنچے، يا مالك كے مال كى حفاظت اور اور اسے ضائع ہونے سے بچانے كے ليے كيا، تو صحيح يہى ہے كہ اسے اس كے كام كى اجرت ملے گى، امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے كئى ايك مقام پر اسے بيان كيا ہے” انتھى .
ماخذ:
الملخص الفقھى، تاليف فضيلۃ الشيخ صالح بن فوزان بن عبداللہ آل فوزان