بنك ميں ميرے دو اكاؤنٹ ہيں، ميں ان ميں سے ايك ميں اپنى تنخواہ ركھتا ہوں، اور دوسرے اكاؤنٹ ميں كچھ دوسرى رقم ہوتى ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ: جب ميں دونوں اكاؤنٹ كى رقم اكٹھى كروں تو اس ميں زكاۃ ہو گى، اور حال يہ ہے كہ ماہانہ حساب و كتاب ميں فرق آتا ہے؟
ميرا دوسرا سوال يہ ہے كہ: ميں نے كچھ رقم بطور پہلى قسط گاڑى خريدنے كے ليے ادا كى، ليكن گاڑى خريدنے كى وكيل نے گاڑى منگوانے ميں تاخير كردى حتى كہ ايك سال سے بھى زيادہ وقت ہو گيا، تو ميں نے مجبورا دوسرى گاڑى خريد لى كہ ايك خود ركھ لوں گا اوردوسرى فروخت كر دونگا ميرا سوال يہ ہے كہ:
1 – كيا پہلى قسط جسے ايك سال سے زيادہ ہو چكا ہے پر زكاۃ واجب ہوتى ہے؟
2 – اور جب ميں نے ايك گاڑى ـ اور يہ نئى گاڑى تھى ـ فروخت كردوں تو كيا اس كى قيمت ميں زكاۃ ہو گى ؟
0 / 0
4,53016/04/2006
گاڑى كى قيمتى پيشگى ادا كر دى ليكن گاڑى لينے ميں تاخير ہو گئى تو كيا وہ اس كى زكاۃ ادا كرے گا؟
سوال: 21247
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس رقم پر بھى سال مكمل ہو جائے اور وہ نصاب كے مطابق ہو چاہے وہ رقم تنخواہ كى ہو يا دوسرى آمدن سے يا كسى نے وہ رقم ہبہ اور عطيہ كى ہو يا وراثت ميں ملى ہو، اس كى زكاۃ ادا كى جائے گى، اور منافع كو اصل مال كے ساتھ ملايا جائےگا.
آپ نے جو گاڑى كى قيمت ميں سے پہلى قسط ادا كى اور وہ خريدنے والے نے حاصل كر لى اس ميں كوئى زكاۃ نہيں، چاہے گاڑى كے حصول ميں تاخير ہو گئى ہو.
اور اگر دوسرى گاڑى استعمال كى نيت سے خريدى گئى، اور پھر آپ نے اسے ضرورت نہ ہونے كى بنا پر فروخت كر ديا تو اس كى قيمت ميں اس وقت زكاۃ نہيں جب تك كہ اس پر سال مكمل نہيں ہوتا.
ماخذ:
الشيخ عبد الكريم الخضير