بعض اوقات اسلامى ملازمت كا حصول مشكل ہو جاتا ہے، كيا ضرورت كى بنا پر سركارى ملازمت كرنا غلط ہے؟
ميرا خيال ہے كہ اكثر تجارتى معاملات ميں داخل ہونے سے يہ افضل ہے، كم از كم يہ سركارى ملازمت ان معاملات سے تو بہتر ہے جو سودى معاملات كے گرد گھومتے ہيں ؟
پرائيويٹ اور سركارى اداروں ميں ملازمت كرنا
سوال: 213
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہو سكتا ہے آپ نے جو كچھ ذكر كيا ہے وہ صحيح بھى ہو، كہ پرائيويٹ تجارتى اداروں ميں سركارى اداروں كى بنسبت زيادہ سودى معاملات كرتے ہوں، ليكن ميرے خيال ميں يہ ممكن نہيں كہ اس سلسلہ ميں كوئى قاعدہ اور اصول وضع كيا جا سكے.
اس ليے ہم يہ كہتے ہيں كہ مسلمان شخص كے ليے كسى بھى ادارہ ميں كام كرنا جائز ہے جب تك اس كا كام حلال اور مباح ہو، اور كسى بھى ادارے ميں حرام كام كى ملازمت كرنا جائز نہيں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرے اللہ تعالى اس كے ليے كافى ہو جاتا ہے، بلاشبہ اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہے گا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 – 3 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد