ميں ايك امريكى رياست ميں مؤقتا امام مسجد ہوں حتى كہ ہمارے پاس عالم دين كو ركھنے كے ليے مال جمع ہو جائے، لوگ چوبيس گھنٹے مسجد كھلى ركھنے كے عادى ہو چكے ہيں، ميں جب فجر كى نماز كے ليے مسجد جاتا ہوں تو بھاگے ہوئے لوگوں كو مسجد ميں سوئے ہوئے پاتا ہوں جنہوں نے فل اے سى چلا ركھے ہوتے ہيں ( ہم ہزاروں ڈالر بجلى كا بل ديتے ہيں ) اور غير مسلم بھى، كچھ روز قبل ہميں مسجد سے شراب كى بوتليں مليں، اور ايك نشئى شخص كو مسجد كے باتھ رومز ميں سوئے ہوئے پايا تو پوليس كو فون كيا تا كہ وہ اسے لے جائيں.
ميں نے تجويز پيش كى كہ عشاء كى نماز كے ( گھنٹہ يا دو گھنٹے بعد ) بعد سے نماز فجر تك مسجد كے دروازے بند ركھے جائيں، اور اكثر وہ لوگ جو نماز عشاء اور فجر يا پھر وہاں تعليم حاصل كرنے آتے ہيں انہيں چابياں دے دى جائيں، چنانچہ ہم نے تالے خريدے اور روزانہ مسجد بند كرنا شروع كر دى.
ليكن بعض افراد نے اس پر اعتراض كيا اور كہنے لگے: اندر والے دروازے بند كرنا اور باہر كا گيٹ كھلا ركھنا ضرورى ہے، كيونكہ اللہ كا گھر چوبيس گھنٹے كھلا رہنا چاہيے، اور دن يا رات ميں جب بھى كوئى شخص عشاء كے بعد نماز كے ليے آئے تو اسے مسجد كھلى ہوئى ملے، اگر بند ركھتے ہيں تو وہ نماز ادا نہيں كر سكتا.
ميرى آپ سے گزارش ہے كہ آپ اس سلسلہ ميں جتنى جلدى ہو سكے اپنى رائے ديں، كيونكہ كچھ لوگ ايسے ہيں جو مسجد كھلى ہونے سے مستفيد ہونا چاہتے، اور مسجد ميں فتنہ پھيلانا چاہتے ہيں.
0 / 0
5,99410/07/2006
اگر مسجد ميں نشئى داخل ہوں تو كيا مسجد بند كرنا صحيح ہے ؟
سوال: 21414
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اصل تو يہى ہے كہ مسجد كھلى ركھى جائے اور بند نہ ہو تا كہ مسلمان جب چاہيں نماز ادا كريں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مسجد نبوى ميں كتے آيا جايا كرتے تھے، جيسا كہ صحيح بخارى ميں حديث ہے.
ليكن اگر مسجد كھلى ركھنے سے مسجد كے اندر برائى اور فساد ہونا شروع ہو اور اس كا خدشہ رہے تو مسجد كى ديكھ بھال اور اس كى حفاظ كے ليے مسجد بند كر دى جائے.
اور اس ليے بھى كہ مفاسد كو دور اور ختم كرنا مصلحت كے حصول سے زيادہ اولى اور بہتر ہے، اور اسى طرح اگر مسجد كى اشياء اور آلات وغيرہ كے چورى ہونے كا خدشہ ہو تو بھى مسجد كرنا صحيح ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ عبد الكريم الخضير