لا علاج امراض کا علاج کروانے کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے؟ اور کیا علاج کا آغاز کرنے سے پہلے مریض سے اجازت لینا ضروری ہے؟ اگر ایمرجنسی ہو تو تب کیا حکم ہو گا؟
علاج کروانے اور مریض سے علاج کی اجازت لینے کا حکم
سوال: 2148
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اسلامی فقہ اکادمی کی جدہ 1412 ہجری میں منعقد ہونے والی ساتویں کانفرنس کے اجلاس کی قرار داد میں ہے کہ:
"اول: علاج کروانا:
بنیادی طور پر علاج کروانا شرعاً جائز ہے، اس لیے کہ علاج کروانے کا ذکر قرآن کریم کے ساتھ ساتھ قولی اور عملی احادیث میں بھی موجود ہے، نیز علاج کروانے سے انسانی جان کی حفاظت ہوتی ہے جو کہ شریعت کے مقاصدِ کلیہ کا حصہ ہے۔
علاج کروانے کا حکم حالات اور افراد کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے:
-چنانچہ ایسے شخص کے لیے علاج کروانا واجب ہو گا جس کے علاج نہ کروانے کی وجہ سے اس کی جان تلف ہو جائے یا کوئی عضو ضائع ہو جائے گا، یا عضو کے معطل ہونے کا خدشہ ہو، یا بیماری ایسی متعدی ہو کہ اس کا نقصان دوسروں تک منتقل ہو۔
-ایسی صورت میں علاج کروانا مستحب ہو گا جب علاج نہ کروانے سے اس میں کمزوری آئے اور پہلی صورت میں بیان کی گئی کوئی چیز نہ ہو۔
-اور ایسی صورت میں جائز ہو گا جب علاج نہ کروانے کی صورت میں پہلی دونوں صورتوں میں سے کچھ بھی مرتب نہ ہو تا ہو۔
– اور اس وقت علاج کروانا مکروہ ہو گا جب علاج کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ نقصان کا خدشہ ہو۔
دوم: لا علاج بیماریوں کا علاج کروانے کا حکم:
الف- مسلمان کے عقیدے کا بنیادی جز ہے کہ بیماری اور شفا دونوں ہی اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، علاج معالجہ تو صرف اللہ تعالی کے اس کائنات میں رکھے ہوئے اسباب کو اختیار کرنا ہے، اس لیے اللہ تعالی کی رحمت اور فضل سے نا امید ہونا جائز نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی سے شفا کی امید رکھنی چاہیے۔ اس لیے معالجین اور مریض کے لواحقین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مریض کو تسلی دیں اور اس کا اعتماد بڑھائیں، مریض کی بیماری کا علاج ممکن ہے یا نہیں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے تسلسل کے ساتھ خیال رکھیں اور مریض کو نفسیاتی اور جسمانی طور پر راحت دینے کی کوشش کریں۔
ب- کسی بیماری کے لا علاج ہونے کے بارے میں فیصلہ طبی ماہرین اور میڈیکلی امکانات پر منحصر ہوتا ہے، نیز مریض کی حالت کا بھی اس میں کافی کردار ہوتا ہے۔
سوم: علاج کے لیے مریض سے اجازت لینا:
الف: اگر مریض کامل اہلیت کا مالک ہو تو بیماری کا علاج مریض کی اجازت سے مشروط ہو گا، اور اگر مریض کی اہلیت ناقص یا معدوم ہو تو پھر مریض کے ولی کی اجازت معتبر ہو گی، شرعی ولایت کے لیے شرعی ترتیب اور تمام احکامات کو مد نظر رکھا جائے گا جو ولی کا دائرہ اختیار مولی علیہ کے مفادات اور مصلحت سمیت مولی علیہ سے تکلیف کو دور کرنے میں محصور ہوتا ہے۔ نیز ولی کے اختیارات کو اس وقت کوئی اہمیت حاصل نہیں ہو گی جب ولی کے اختیارات کی وجہ سے مولی علیہ مریض کو واضح نقصان ہو ، اور ایسی صورت میں حق اذن دیگر اولیا کی جانب منتقل ہو جائے گا اور آخر کار حکمران کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
ب- بسا اوقات حکمران کے لیے علاج کا حکم دینا لازم ہو جاتا ہے، مثلاً: متعدی امراض کا علاج اور بیماریوں سے بچاؤں کے لیے لگائی جانے والی ویکسین وغیرہ
ج-ایسے حادثاتی حالات جن میں زخمیوں کی حالت خطرے میں ہو تو ان کا علاج اجازت ملنے تک موقوف نہیں ہو گا بلکہ فوری علاج شروع کروایا جائے گا۔
د- طبی تحقیقات میں صرف مکمل اہلیت والے شخص کی اجازت سے ہی انہیں شامل کیا جائے، اور اس میں کسی قسم کی جبر کی کیفیت بھی نہ ہو جیسے کہ جیل میں قید افراد ، یا مالی لالچ دی جائے جیسے کہ غریب لوگوں کو ورغلایا جائے، نیز ان طبی تحقیقات کی وجہ سے ان میں شامل افراد کو کسی قسم کا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ نیز طبی تحقیقات میں ایسے لوگوں کو شامل کرنا جائز نہیں ہے جن کی اہلیت ناقص یا معدوم ہے چاہے انہیں تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے ان کے ولی اجازت بھی دے دیں۔" ختم شد
ماخوذ از: مجلة مجمع الفقه الإسلامي ، شمارہ نمبر: 7، جلد نمبر: 3 ، صفحہ نمبر: 729
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب