بعض تاجر خريدار يا كرايہ پر كچھ حاصل كرنے والے سے بطور بيعانہ كچھ رقم پيشگى ليتے ہيں كہ اگر خريدار يا كرايہ دار اپنى رائے سے پھر جائے اور چيز نہ خريدے اور كرايہ پر حاصل نہ كرے تو پيشگى ادا كى جانے والى رقم بائع ضبط كرلے گا، تو ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
بيعانہ كى بيع
سوال: 2149
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس سوال كا موضوع بيعانہ والى بيع ہے، اور بيعانہ كى بيع سے مراد يہ ہے كہ اگر خريدار مال خريدے گا تو بطور بيعانہ دى جانے والى رقم اس سامان كى قيمت ميں شامل ہو گى اور اگر خريدار چيز نہيں خريدتا تو يہ رقم بائع ركھے گا، اور يہ بيع اجارۃ كى جگہ ہو گى كيونكہ وہ منافع كى بيع ہے، اور ايك حديث ميں بيعانہ كى بيع سے ممانعت آئى ہے ليكن يہ حديث ضعيف ہے صحيح نہيں، اور بيعانہ كى بيع كے جواز سے كچھ معين حالات مستثنى ہيں جن ميں بيع السلم شامل ہے كيونكہ اس ميں معاہدہ كى مجلس ميں پورى قيمت ادا كى جاتى ہے، اور اسى طرح نقد كى نقد كے ساتھ فروخت اور سونے اور چاندى كى فروخت كيونكہ اس بيع ميں مجلس كے اندر ہى قبضہ ضرورى ہے، لھذا ان عقود اور معاہدات ميں بيعانہ كى جائز نہيں.
يہ اور جب انتظار كى مدت محدد بھى كردى جائے تو بيعانہ كى بيع جائز ہے اور خريدارى مكمل ہونے پر بيعانہ كى رقم قيمت كا حصہ شمار ہو گى، اور اگر خريدار چيز نہيں خريدتا تو جب وہ دونوں كى رضامندى سے وہ رقم بائع كا حق ہے.
واللہ تعالى اعلم .
ماخذ:
قرارات مجمع الفقہ الاسلامى صفحہ نمبر ( 165 )