ان بوليوں ميں جس ميں يہ شرط ركھى جاتى ہے كہ اس ميں شركت كرنے والا بولى ميں شامل ہونے سے قبل كچھ رقم جمع كرائےان بوليوں كا حكم كيا ہے؟
اور موجودہ دور ميں معروف بولي والى بيع جس ميں سب سے زيادہ بولى دينے والے كو چيز فروخت كى جاتى ہے كا حكم كيا ہے ؟
سرعام بولى والى بيع كا حكم
سوال: 2150
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بولى والى بيع ميں جب شرعى شروط پائى جائيں تو يہ بيع صحيح ہے، جمہور اہل علم كا مسلك يہى ہے، انہوں نے مندرجہ ذيل حديث كو دليل بنايا ہے:
انس بن مالك رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بچھونا ( زمين پر بچھانے والى چٹائى يا پھر جانور كى پيٹھ پر ڈالا جانے والا پردہ ) اور ايك پيالا فروخت كيا اور فرمايا:
يہ بچھونا اور پيالا كون خريدے گا؟ تو ايك شخص نے كہا ميں انہيں ايك درہم ميں خريدتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ايك درہم سے زيادہ كون دے گا؟ ايك درہم سے زيادہ كون دے گا؟ تو ايك شخص نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو دو درہم ديے اور انہيں خريد ليا" سنن ترمذى حديث نمبر ( 1139 ). امام ترمذى حديث روايت كرنے كے بعد كہتے ہيں: يہ حديث حسن ہے، اور ہم اسے الاخضر بن عجلان كى حديث كے علاوہ كسى اور سے نہيں پہچانتے؟… اور اس پر بعض اہل علم كا عمل ہے اور وہ مواريث اور غنائم ميں زيادہ دے كر خريدنے والى بيع ميں كوئي حرج نہيں ديكھتے، اور يہ حديث معمر بن سليمان، اور كئى ايك بڑے لوگوں نے اخضر بن عجلان سے روايت كيا ہے.
اور ذيل ميں اس بيع كى تعريف اور اس كے متعلقہ چند ايك قواعد و ضوابط كا ذكر كيا جاتا ہے:
1 – بولى كا معاہدہ اور سودا يا عقد:
ايسے معاوضے كا عقد اور معاہدہ جو لكھ كر يا آواز لگا كر بولى ميں شركت كرنے والوں كى رغبت كے ليے كيا جائے اور يہ عقد فروخت كرنے والے كى رضامندى كے وقت مكمل ہوتا ہے.
2 – حسب موضوع فروخت اور كرايہ وغيرہ اور اس كے حسب طبيعت عقد و معاہدے كى بھى كئي ايك انواع و اقسام ہيں، مثلا: اختيارى: جيسا كہ افراد كے مابين عام بولي، اور ايك قسم اجبارى ہےجيسا كہ وہ بولياں جو ادائيگى واجب كرتى ہو، اور عام اور خاص كمپنيوں اور حكومتى اداروں اور افراد كى محتاج ہو.
3 – بولي كے عقد اور معاہدے ميں لكھے جانے والے معاملات اور شروط و قواعد و ضوابط چاہے وہ دفترى ہوں يا قانونى ان سب ميں ضرورى ہے كہ يہ شريعت اسلاميہ كے احكام سے تعارض نہ ركھے اور مخالف نہ ہو.
4 – بولى ميں شامل ہونے والوں سے زر ضمانت كے طور پر كچھ رقم لينا شرعا جائز ہے، اور يہ ضرورى اور واجب ہے كہ ہراس شركت كرنے والے كو جو اس بولى ميں خريدارى نہ كرسكے اسے زر ضمانت والى رقم واپس كردى جائے، اور جو بولى دينے ميں كامياب ہو جائے زر ضمانت قيمت ميں شامل كرلى جائے.
5 – بولى ميں شركت كرنے كى فيس لينے ميں كوئي شرعا كوئى حرج نہيں – يعنى شروط والى كاپى اور اوراق كى اصلى قيمت سے زيادہ نہ ہو – كيونكہ يہ فيس ان اوراق كى قيمت ہے.
6 – دھوكہ اور فراڈ حرام ہے، اس كى كئى ايك صورتيں ہيں:
ا – كوئى ايسا شخص بولى ميں اضافہ كرے جو خريدنا نہيں چاہتا ليكن صرف خريدار كو دھوكہ دينا چاہتا ہے.
ب – جو خود نہيں خريدنا چاہتا ليكن وہ خريدار كو دھوكہ دينے كے ليے بولى ميں فروخت كى جانے والى چيز كو بہت اچھا بيان كرے اور كہے كہ اسے اس كا تجربہ ہے اور اس كى تعريف كرے تا كہ خريدار اس كى قيمت ميں اضافہ كرے.
ت – سامان فروخت كرنے والا يا اس كا وكيل يا پھر بولى بولنے والا ايجنٹ جھوٹا دعوى كرے كہ اس نے اس ميں كچھ محدود رقم كى ادائيگى كى ہى تا كہ بھاؤ لگانے والے پر خلط ملط كرے.
ث – شرعى طور پر ممنوعہ دھوكہ كى صورتوں ميں سمعى اور مرئى اور پڑھے جانے والے وسائل پر اعتماد كرنا جو ايسے اوصاف بيان كرتے ہيں جن كا حقيقت سے كوئي تعلق نہيں ہوتا، يا پھر خريدار كو دھوكہ دينے كے ليے قيمت زيادہ كردينا، اور اسے معاہدے كرنے والے پر ڈال دينا بھى شامل ہے.
واللہ تعالى اعلم .
ماخذ:
ديكھيں: قرارات مجمع الفقہ الاسلامى صفحہ نمبر ( 167 )