ميرى شادى كو گيارہ برس ہو گئے ہيں ليكن ابھى تك ہمارى كوئى اولاد نہيں، سبب يہ ہے كہ ميرے خاوند كو كچھ بيمارى سى لاحق ہے اسے اس كا علم بھى ہے ليكن وہ مجھے نہيں بتاتا، اگر مجھے شادى سے قبل اس كا علم ہوتا تو ميں شادى ہى نہ كرتى، ميرا سوال يہ ہے كہ:
ميں اسے طلاق حاصل كرنا چاہتى ہوں اور يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ ميرے حقوق كيا ہيں ؟
بيمار خاوند سے طلاق لينے كا حكم
سوال: 21592
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جن مشكلات كى طرف آپ نے اشارہ كيا ہے اگر تو وہ خاوند ميں عيب شمار ہوں يعنى اس كى بنا پر خاوند سے متنفر كرنے كا باعث ہو اور آپس ميں استمتاع ميں نفرت پيدا كرے يا پھر نكاح كے مقصد رحمت و محبت ميں ركاوٹ بنے مثلا خاوند جماع كى طاقت نہ ركھے، يا پھر ايسى بيمارى ہو كہ استمتاع ميں ركاوٹ بن جائے تو علماء اسے نكاح كے عيوب ميں شامل كرتے ہيں جس سے بيوى كو اختيار حاصل ہو جاتا ہے.
يعنى بيوى كو عقد نكاح فسخ كرنے يا نكاح باقى ركھنے كا اختيار مل جاتا ہے، اور خاوند كو كوئى حق نہيں كہ وہ آپ كو ديا گيا مہر واپس لے، كيونكہ آپ مہر كى حقدار ہيں اس ليے كہ اس نے بيتے ہوئے برسوں ميں آپ كى شرمگاہ كو حلال كيا ہے.
ليكن اگر خاوند بانجھ ہو يعنى اس كى اولاد نہ ہوتى ہو تو جمہور علماء كے ہاں يہ مرد ميں عيب شمار نہيں ہوتا جس سے نكاح فسخ كيا جائے، صرف حسن بصرى اسے عيب شمار كرتے ہيں اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ بھى اسى جانب مائل ہيں.
خاوند كو چاہيے تھا كہ وہ بيوى كو واضح كرتا كيونكہ جس طرح خاوند كو اولاد كا حق ہے اسى طرح بيوى كو بھى اولاد حاصل كرنے كا حق ہے، اسى ليے خاوند كو اپنى بيوى سے عزل ( انزال شرمگاہ سے باہر كرنا ) كرنے سے منع كيا گيا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ فسخ نكاح كو جائز كرنے والے عيوب بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
” ہمارے علم كے مطابق تو اہل علم كے ہاں اس ميں كوئى اختلاف نہيں، صرف حسن بصرى رحمہ اللہ كا كہنا ہے كہ: جب دونوں يعنى خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك بانجھ ہو تو دوسرے كو اختيار ہوگا.
اور امام احمد رحمہ اللہ يہ پسند كرتے ہيں كہ وہ اپنا معاملہ واضح كرے، ہو سكتا ہے اس كى بيوى اولاد چاہتى ہو، اور يہ نكاح كے شروع ميں ہونا چاہيے، ليكن اس سے فسخ ثابت نہيں ہوتا، اگر اس سے فسخ نكاح ثابت ہوتا تو پھر آيسہ يعنى نااميد ہونے والى عورت ميں يہ ضرور ثابت ہوتا؛ اور اس ليے بھى كہ اس كا علم نہيں، كيونكہ كچھ آدمى ايسے ہوتے ہيں جنہيں جوانى ميں اولاد نہيں ہوتى ليكن بڑھاپے ميں اولاد ہو جاتى ہے.
اور سارے عيوب سے ان كے ہاں فسخ نكاح ثابت نہيں ہوتا ”
ديكھيں: المغنى ( 7 / 143 ).
اس بنا پر اگر آپ اس كے ساتھ صبر نہيں كر سكتيں يا تو وہ آپ كو شرعى طلاق دے يا پھر آپ اس سے خلع حاصل كر ليں كہ آپ اپنے خاوند كو كچھ مال دے كر يا اسے مہر واپس كر كے خلع حاصل كر ليں، جو بھى عوض بن سكتا ہے جس پر خاوند راضى ہو جائے اسے ديں اور خلع حاصل كر ليں، پھر وہ آپ كو ايك طلاق دے دے، اور اس طلاق سے آپ اس سے بائن ہو جائيں گى اس كے بعد عدت ميں اس كے ليے آپ سے رجوع كرنا حلال نہيں ہوگا، ليكن عدت كے بعد نيا نكاح پورى شروط كے ساتھ ہو سكتا ہے.
خلع كے جواز اور واقع ہونے كى دليل يہ فرمان بارى تعالى ہے:
يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں، پھر يا تو اچھائى سے روكنا ہے يا عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے، اور تمہارے ليے حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى واپس لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو اس ليے اگر ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں، يہ اللہ كى حديں ہيں تم ان سے تجاوز مت كرو، اور جو كوئى بھى اللہ كى حديں تجاوز كريگا تو وہى ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).
اور سنت نبويہ ميں اس كى دليل ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ حديث ہے:
ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو ميں ثابت بن قيس كے دين ميں عيب لگاتى ہوں اور نہ ہى اخلاق ميں ليكن ميں اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟
وہ كہنے لگى: جى ہاں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اے ثابت تم باغ قبول كر كے اسے ايك طلاق دے دو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4868 )
علماء كرام كا اجماع ہے كہ اگر كوئى شرعى ضرورت و حاجت ہو تو خلع جائز ہے، اس ضرورت كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1859 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس كے باوجود ہم يہ نصيحت كرتے ہيں كہ اگر خاوند كا اخلاق اور دين پسند ہو اور آپ كے ليے اگر خاوند كے ساتھ ازدواجى زندگى بسر كرنے كى حالت ميں حرام كام ميں پڑنے كا خدشہ نہ ہو تو پھر صبر كرنا اور اسى خاوند كے ساتھ ہى رہنا بہتر ہے.
اميد ہے اللہ تعالى آپ كو اسى خاوند سے اولاد نصيب كر دے جس سے آپ اپنى آنكھوں كو ٹھنڈا كر ليں.
اللہ سبحانہ و تعالى كو ہى صحيح علم ہے.
مزيد آپ المغنى ابن قدامہ ( 7 / 246 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 238 – 240 ) كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد