میں الحمد للہ مسلمان نوجوان ہوں اورمیرے والد مالدار ہیں انہوں نے شیخ طنطاوی کا بنک کے فائدہ کے بارہ میں حلال ہونے کافتوی سنا تواپنی دولت بنک میں رکھ دی اوروہاں سے فائد لینا شروع کردیا ، میں اس پر مطمئن ہوں کہ یہ فوائد حرام ہیں اوروالد کوبھی مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ وہ اس سوچ کوبدل لیں لیکن اس کا کوئ فائد نہیں ہوا ۔
توکیا میری والدہ اوربہن بھائیوں پر کوئ گناہ ہے ، اورمیں اپنے والد کویہ قسم بھی دی کہ وہ ہم پراس مال سے جووہ فوائد حاصل کرتا ہے خرچ نہ کرے ؟
ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ اورجب ہمارے پاس یہ مال آۓ توہم کیا کریں ؟
مجھے اللہ تعالی نے سعودیہ میں کام کرنے کا موقع دیا ہے اورسفر کا خرچہ بھی میرے والد نے دیا تھا مجھے علم نہیں کہ آیا یہ بھی اسی فوائد میں سے تھا کہ نہیں ؟
توکیا اب اللہ تعالی مجھے جواس کام سے رزق دے رہا ہے وہ حرام ہے کہ نہں ؟ مجھے اس کے متعلق معلومات مہیا کریں ۔
سود خور باپ کے مال سے مستفید ہونا
سوال: 21701
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر سود حاصل کرنے والے شخص کی اولاد کے پاس کوئ اورذریعہ معاش نہیں جس سے وہ اپنا پیٹ پال سکیں تو پھر والد کی سود والے مال سے ان کا کھانا پینا اورکپڑے وغیرہ پہننا کوئ گناہ نہیں ۔
لیکن انہیں چاہیے کہ وہ اپنے والد کوایسے طریقے سے نصیحت کریں جوفائدہ مند ہو اوراگر ان کے پاس کوئ اورذریعہ معاش پیدا ہوجاۓ یا پھر وہ اپنی ضروریات زندگی کے لیے اس مال کے محتاج نہ رہیں تو ان پر اس سود والے مال سے دور رہنا اوربچنا واجب ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگروالد کی کمائ حرام ہو تواسے نصیحت کرنی واجب ہے یا تواستطاعت رکھنے کی بنا پرخود اسے نصیحت کریں ، یا پھر اہل علم کی مدد وتعاون سے اسے نصیحت کروائيں اوراسے اس کے حرام ہونے کا اطمنان دلوائيں ، یا پھر اپنے دوست واحباب کی مدد حاصل کریں جواسے مطمئن کریں تا کہ وہ اس حرام کمائ سے بچ سکے ۔
اوراگر ایسا نہ ہوسکے توپھر تمہارے لیے ضرورت کے مطابق وہ مال کھانا جائز ہے اوراس حالت میں اس کا تم پر کوئ گناہ نہیں ، لیکن یہ صحیح نہيں کہ تم اپنی ضرورت سے بھی زيادہ لے لو کہ جائز ہے ۔
فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 452 ) ۔
اوراگرسود حاصل کرنے والا والد فوت ہوجاۓ تو ورثاء پر واجب اورضروری ہے کہ وہ اس سودی مال سے چھٹکارا حاصل کریں اوراسے اس کے مالکوں کو واپس دے دیں اگر ان کا علم ہی نہیں توپھر اسے عام اورخاص مصرف میں لا کر اس سے چھٹکارا حاصل کریں ۔
اوراگراپنے والد کے مال میں وہ سود کی رقم کی تحدید نہ کرسکیں تواسے دوقسموں میں تقسیم کرکے نصف خود لے لیں اورنصف کوتقسیم کردیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سود کا لین دین کرنے والے کے بارہ میں سوال کیا گیا کہ اس نے اپنے پیچھے مال واولاد چھوڑي اوروہ اس کی حالت کا بھی علم رکھتا ہے توکیا بیٹے کے لیے وراثت کی بنا پر مال حلال ہے یا کہ نہیں ؟
توان کا جواب تھا :
بیٹے کوسود کی جس مقدار کا علم ہے وہ اسے نکال دے ، اوراگرممکن ہوتووہ لوگوں کوواپس کردے اسے صدقہ نہ کرے ، اورجوباقی وراثت ہے وہ اس پر حرام نہيں ، لیکن جس مقدار میں شبہ ہو اس کے لیے مستحب اوربہتر ہے کہ اسے چھوڑ دے جب اس کا قرضے کوادا کرنے یا اہل عیال پرخرچ کرنا واجب نہیں ۔
اوراس کے والد نے ایسی سودی معاملات سے وہ مال حاصل کیا ہو جس کی بعض فقھاء اجازت دیتے ہیں تووارث کے لیے اس سے نفع حاصل کرنا جائز ہے ، اوراگر مال میں حلال اورحرام دونوں کی ملاوٹ ہے اوراس کی مقدار کا علم نہیں تواس کے دوحصے کرلے ۔
دیکھیں مجموع الفتاوی ( 29 / 307 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب