رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت پر چلنے والا شخص واجب اور فرض میں بالکل کوئی فرق نہیں سمجھتا ، تو یہ تقسیم کہاں سے در آئی ہیں؟ تو اس بارے میں آپ مکمل وضاحت فرمائیں، اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے، اور اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں اجر عطا فرمائے۔
کیا واجب اور فرض میں فرق ہے؟
سوال: 217272
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
احناف اور امام احمد سے ایک روایت کے علاوہ تمام علمائے اصول اس بات کے قائل ہیں کہ فرض اور واجب دونوں مترادف ہیں۔
فرض یا واجب : اس عمل کو کہتے ہیں جسے شریعت نے لازمی طور پر کرنے کا حکم اس طرح دیا ہو کہ کرنے والے کو ثواب ملے اور نہ کرنے والا سزا کا مستحق ہو۔ چاہے اس عمل کا لازم ہونا دلیل قطعی سے ثابت ہو یا دلیل ظنی سے، دونوں کی وجہ سے حکم میں کوئی فرق نہیں آتا، نہ ہی اس کی وجہ سے نتائج میں کوئی فرق آتا ہے۔
جبکہ احناف یہ کہتے ہیں کہ: فرض اور واجب میں فرق ہے، چنانچہ ان کے ہاں فرض وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو، اور واجب وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو۔
جیسے کہ علامہ شیرازی کی " اللمع في أصول الفقه " صفحہ: 23میں ہے کہ: "واجب ، فرض اور مکتوب دونوں کا حکم ایک ہی ہے، یعنی جس کام کو ترک کرنے سے سزا ملتی ہو۔
جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ: واجب وہ عمل ہے جو کہ اجتہادی دلیل سے ثابت ہو، جیسے احناف کے ہاں وتر اور قربانی کا معاملہ ہے۔ جبکہ فرض اس عمل کو کہتے ہیں کہ جو قطعی دلیل سے ثابت ہو، جیسے پانچ نمازیں، فرض زکاۃ وغیرہ ۔ لیکن یہ غلط ہے؛ کیونکہ کسی چیز کا نام رکھنے کے لیے شریعت، لغت اور استعمال کو دیکھا جاتا ہے، اور ان میں سے کہیں بھی یہ بات نہیں ہے کہ اجتہادی دلیل سے ثابت ہونے عمل اور قطعی دلیل سے ثابت ہونے والے عمل میں فرق ہو گا!" ختم شد
اسی طرح "قواطع الأدلة في الأصول" (1 / 131) میں ہے کہ:
"ہمارے ہاں فرض اور واجب ایک ہی ہیں، جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ: فرض وہ ہے جو قطعی دلیل سے ثابت ہو، جبکہ واجب وہ ہے جو ظنی دلیل سے ثابت ہو۔" ختم شد
اسی طرح علامہ آمدی رحمہ اللہ کی "الإحكام في أصول الأحكام" (1 / 99) میں ہے کہ:
"ہمارے شافعی فقہائے کرام کے ہاں فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔ جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے لفظ فرض کو ایسے عمل کے لیے خاص کیا ہے جو قطعی دلیل سے ثابت ہو، اور واجب اس کے لیے خاص کیا ہے جو ظنی دلیل سے ثابت ہو ۔۔۔ جبکہ راجح وہی بات ہے جو ہمارے فقہائے کرام نے کی ہے کہ کسی حکم کے ثابت ہونے کے لیے استعمال ہونے والا طریقہ کہ جس کی بنیاد پر قطعی اور ظنی کا فیصلہ ہو بذات خود اس اختلاف کا موجب نہیں ہے۔" ختم شد
اسی طرح مزید کے لیے آپ علامہ زرکشی کی کتاب: "البحر المحيط في أصول الفقه" (1/240-244) کا بھی مطالعہ کریں۔
جمہور اہل علم اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے درمیان اس مسئلے کا اختلاف لفظی اختلاف سے زیادہ کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ اس اختلاف کی وجہ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا؛ اس لیے کہ تمام کے تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی عمل فرض ہو یا واجب ہر دو صورت میں اس کا تارک اپنے آپ کو اللہ تعالی کی سزا کا مستحق بناتا ہے۔
یہ بات تمام کے تمام اہل علم کے درمیان متفقہ ہے، اور فقہی احکامات میں اسی بات کی ضرورت ہوتی ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب