0 / 0

دادى اور نانى كو زكاۃ دينے كا حكم

سوال: 21801

ميرے پاس مال ہے جس كى زكاۃ ميں اپنے قريبى محتاج رشتہ داروں كو ديتا ہوں، اور وہ ميرى نانى، اور ميرے دادا كى بيوى جو كہ ميرے والد كى والدہ نہيں انہيں ديتا رہا ہوں، يہ علم ميں رہے كہ ميرے علاوہ ان كے اور بھى بچے ہيں، اور ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ايك حديث سنى ہے جو بالمعنى يہ ہے:
" اسے اپنے قريبى رشتہ داروں ميں ديا كرو"
يہ حديث كہاں تك صحيح ہے، اور پچھلے برسوں كى ادا كردہ زكاۃ كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں ركھيں كہ مجھے يہ برس ياد نہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

سوال ميں مذكور حديث صحيح ہے، جب ابو طلحہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنا بيرحاء نامى باغ صدقہ كرنا چاہا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا تھا:

" ميرى رائے يہ ہے كہ تم اسے اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كر دو "

اس كے صحيح ہونے ميں اتفاق ہے.

اور يہ تو نفلى صدقہ كے متعلق ہے، اور رہا مسئلہ زكاۃ كا تو اس ميں تفصيل ہے:

اگر تو وہ رشتہ دار اور قريبى نہ تو فرع اور نہ ہى اصل ( يعنى آباء اجداد اور اولاد ) ميں سے ہيں تو پھر انہيں زكاۃ دينا جائز ہے، مثلا بھائى، ماموں، چچے وغيرہ اگر يہ محتاج اور فقير ہيں تو انہيں زكاۃ دينا جائز ہے، بلكہ انہيں زكاۃ دينے ميں ايك تو صدقہ اور دوسرا صلہ رحمى دونوں كا اجروثواب ہے، اور اسى طرح دادے اور نانے كى بيوى جبكہ وہ آپ كى دادى اور نانى نہ ہو اور وہ فقير اور محتاج ہو اور اس پر خرچ كرنے والا كوئى اور نہ ہو جو اس كى ضروريات پورى نہ كرتا ہو.

اور آپ كو چاہيے كہ جو آپ نے اپنى سگى نانى كو ( زكاۃ ) دى ہے اس كى قضاء كريں يعنى وہ دوبارہ ديں اگر وہ آپ كے علاوہ دوسروں كے خرچ كے ساتھ مستغنى تھى.

ماخذ

ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 14 / 306 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android