اگر خواتین کے ابرو مردوں کی طرح لگتے ہوں تو کیا ان کیلئے ابرو کاٹنا یا مونڈنا جائز ہے؟ یعنی کہ ابرو کے بال بہت زیادہ گھنے ہیں ، برابر نہیں ہیں۔
ابرو کے بال اگر بہت زیادہ گھنے اور لمبے ہوں تو انہیں تراشنے کا حکم
سوال: 218579
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ابرو کے بالوں کو مونڈنا یا تراشنا ان دونوں کا حکم نوچنے کے ساتھ ملایا جائے گا یا نہیں؟ چنانچہ جمہور علمائے کرام کے مطابق بالوں کو مونڈنا یا تراشنا بھی نوچنے کا ہی حکم رکھتا ہے، اس لیے کسی بھی شخص کیلئے اپنے ابرو مونڈنا یا تراشنا اسی طرح جائز نہیں ہے جیسے نوچنا حرام ہے۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ: ابرو کے بال صرف نوچنا حرام ہے، اس لیے ابرو کے بال مونڈ کر یا تراش کر زائل کیے جا سکتے ہیں، یہ موقف حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔
چنانچہ " الموسوعة الفقهية " (14/82) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابرو کے بالوں کو نوچنا بھی چہرے [کے بال]نوچنے کی ممانعت میں شامل ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کی لعنت ہو بال نوچنے والی اور نوچنے کا کام کروانے والی پر)
لیکن فقہائے کرام کا مونڈنے اور تراشنے کے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ مالکی، شافعی فقہائے کرام تراشنے کو بھی نوچنے میں شمار کرتے ہیں، جبکہ حنبلی فقہائے کرام تراشنے اور مونڈنے کو جائز کہتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک صرف نوچنا منع ہے" انتہی
اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (22393) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
چہرے کے بال نوچنا حرام ہے، لیکن اس میں سے ابرو کے وہ بال مستثنی ہونگے جن کی وجہ سے آنکھوں کو تکلیف ہو ، یا حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں، یعنی اتنے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں کہ دکھنے میں عجیب لگے اور عورت کیلئے شرمندگی کا باعث بنے، تو ایسی حالت میں ابرو تراش کر عام لوگوں کے مطابق بنائے جائیں گے؛ کیونکہ ایسی صورت حال میں ابرو کو اس لیے تراشا جا رہا ہے کہ ابرو اذیت کا باعث نہ بنیں، اور یہ اسی وقت ہوگا جب انہیں معمول کے مطابق بنایا جائے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابرو کے بال اگر نوچ کر ہلکے کئے جائیں تو یہ حرام ہے، بلکہ کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ ابرو کے بالوں کو نوچنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
اور اگر تراش کر یا مونڈ کر ابرو کے بال ہلکے کیے جائیں تو اسے اہل علم نے مکروہ کہا ہے، جبکہ کچھ نے اسے بھی حرام ہی کہا ہے، کیونکہ یہ ان کے نزدیک بال نوچنے کے مترادف ہی ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ : چہرے کے بالوں میں کسی بھی تبدیلی کو بھی نوچنے میں ہی شمار کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالی نے اس کی بالکل اجازت نہیں دی۔
لیکن جو بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہم ابرو مونڈنے یا تراشنے کے عمل کو جائز یا مکروہ کہہ بھی دیں پھر بھی خواتین اپنے ابرو تراش کر یا مونڈ کر ہلکے مت کریں، البتہ اگر ابرو بہت ہی زیادہ لمبے ہوں کہ آنکھوں کے آگے آ جائیں، اور دیکھنے میں رکاوٹ بنیں تو پھر بقدر ضرورت انہیں تراشا جا سکتا ہے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین " (11/133)
نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"ابرو کو ہلکا کرنا صرف اسی وقت جائز ہے جب معمول سے ہٹ کر بہت ہی زیادہ گھنے ہوں، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ انہیں بھی ہلکا مت کریں، انہیں جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دیں، نیز انہیں ہلکا کرنے کیلئے تراشیں یا مونڈیں، نوچنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نوچنا حرام ہے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب "
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات