داؤن لود کریں
0 / 0
114416/07/2001

مصنوعی بار آوری کے لیے میاں بیوی کے علاوہ کسی اور کے سپرم یا بیضہ کو استعمال کرنے کا حکم

سوال: 21871

مصنوعی بار آوری کے دوران بیضہ یا سپرم بیوی یا خاوند کا نہ ہو بلکہ کسی اور کا ہو تو پھر ایسی حالت میں بچے کی نسبت کس کی طرف کی جائے گی؟

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جب بار آوری کے عمل میں بیوی اور خاوند سے ہٹ کر کسی تیسرے غیر متعلقہ فرد کا دخل ہو کہ بیضہ کسی اجنبی عورت کا ہو یا جس کے رحم میں بار آور شدہ مادہ منویہ رکھا جا رہا ہے وہ بیوی نہ ہو، یا سپرم خاوند کے نہ ہوں تو ان تمام صورتوں میں مصنوعی بار آوری حرام ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں اسے زنا سمجھا جائے گا؛ کیونکہ کسی عورت کا کسی اجنبی مرد کی منی اپنے اندر داخل کروانے کا وہی حکم ہو گا جو اس عورت کے ساتھ ہم بستری کرنے کا ہے۔

جبکہ ایسی صورت میں بچہ مان کی طرف ہی منسوب ہو گا جس نے اسے جنم دیا ہے، جس مرد کا نطفہ ہے اس کی طرف منسوب نہیں ہو گا، بلکہ ایسے ہی جیسے ولد الزنا کا معاملہ ہوتا ہے، لیکن اگر یہ شخص بچے کے والد ہونے کا دعوی کرے اور کوئی بھی اس کی مخالفت نہ کرے تو پھر اس کی طرف نسبت کر دی جائے گی؛ کیونکہ شرعی منشا یہی ہے کہ لوگوں کو ان کے والدین کی طرف ہی منسوب کیا جائے، ایسی صورت میں حدیث نبوی: (بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا جبکہ زانی کے لیے پتھر ہیں۔) کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ حدیث اس وقت ہے جب پیدا ہونے والے بچے کے نسب کے متعلق کوئی جھگڑا ہو جیسے کہ حدیث کا شان ورود واضح کرتا ہے۔

ماخذ

مجلة الدعوة ، شمار: 1796 ، صفحہ: 20

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android
at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android