ہمارے شہر ميں ايك بہت اچھا قارى ہے جو نماز بہت خشوع كے ساتھ ادا كرتا ہے، اور اسے سننے كے ليے دور دور كے شہروں سے لوگ آتے ہيں ان لوگوں كے آنے كا حكم كيا ہے ؟
كيا يہ درج ذيل حديث كى ممانعت ميں تو نہيں آتے:
” تين مساجد كے علاوہ كسى اور مسجد كى طرف سفر كر كے نہيں جايا جائے، مسجد حرام اور مسجد اقصى اور ميرى يہ مسجد ”
صحيح بخارى باب فضل الصلاۃ حديث نمبر ( 1197 )
اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كريں.
كسى اچھے اور بہترين قارى كے پيچھے دور والى مسجد ميں نماز كے ليے جانے كا حكم
سوال: 21877
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ طلب علم اور قرآن كريم ميں تفقہ اور سمجھ كے حصول اور اسے اچھى آواز كے ساتھ پڑھنے والے كو سننے كے ليے سفر ہے، اس غرض سے سفر كرنا ممنوعہ سفر ميں شامل نہيں ہوتا.
موسى عليہ السلام نے طلب علم كے ليے سمند كے ملنے والى جگہ تك كا علمى سفر كيا تا كہ خضر عليہ السلام سے مل سكيں، اور صحابہ اور ان كے بعد والے اہل علم بھى اپنے علاقے اور ايك جگہ سے دوسرى جگہ طلب علم كے ليے سفر كرتے رہے ہيں.
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو شخص طلب علم كى راہ پر چلا اللہ تعالى اس كے ليے جنت كى راہ آسان كر ديتا ہے ”
صحيح مسلم كتاب الذكر و الدعاء حديث نمبر ( 2699 ).
ماخذ:
الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ديكھيں: مجلۃ البحوث عدد نمبر ( 42 ) صفحہ نمبر ( 137 )