ميں اصلا ….. ہوں ليكن امريكا ميں رہائش پذير ہوں ميرے آباء و اجداد ….. سے تعلق ركھتے ہيں، اور ميرے اكثر اقربا رمضان المبارك ميں نياز تقسيم كرتے ہيں اور يہ حضرت على كى وفات كى تاريخ ميں ہوتى ہے، مخصوص كھانا تيار كر كے محدود ايام ميں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس وغيرہ سورتيں پڑھ كر اللہ سے دعا كرتے ہيں كہ اللہ تعالى على رضى اللہ تعالى عنہ كو جنت ميں اعلى مقام عطا فرمائے اور پھر بڑے احترام كے ساتھ كھانا تناول كرتے ہيں يہ كام سال ميں كئى بار كئى صحابہ وغيرہ دوسرے مشہور افراد كى موت كى مناسب سے كھانا پكايا جاتا ہے، ليكن ميرے خاندان كے افراد ايسا نہيں كرتے كيونكہ وہ اسے بدعت شمار كرتے ہيں، ليكن جب ميں نے دوسروں كو بتايا تو وہ ميرى رائے كى موافقت نہيں كرتے بلكہ كہنے لگے يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ قرآن مجيد كى آيات اور سورۃ فاتحہ كى تلاوت كرنا غلط ہو؟
برائے مہربانى آپ يہ وضاحت كريں كہ كہيں يہ كام كبيرہ گناہوں ميں شامل تو نہيں ہوتا، يا كہ اسلام ميں اس طرح كے كام كرنا جائز ہيں ؟
وفات على رضى اللہ عنہ كى مناسب سے اجتماعى قرآن خوانى كرنے كا حكم
سوال: 21903
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ نے جس فعل كا ذكر كيا ہے وہ بدعت ہے جيسا كہ آپ سوال ميں اشارہ بھى كر چكے ہيں، كيونكہ اس فعل كو سرانجام دينے والے بلاشك و شبہ اسے بطور تقرب اور عبادت كرتے ہيں اور جو كام بھى بطور عبادت تقرب كيا جائے اس كى مشروعيت پر كتاب و سنت سے دليل كا ہونا ضرورى ہے وگرنہ وہ بدعت شمار ہو گا.
اور جو شخص يہ كہتا ہے كہ سورۃ فاتحہ وغيرہ دوسرى آيات پڑھنا غلط كس طرح ہو سكتا ہے ؟
اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ دين ميں بدعت دو قسم كى ہيں:
پہلى قسم:
نئى بدعت جس كى شرع ميں كوئى اصل نہ ملتى ہو، مثلا كوئى شخص كسى نئے طريقہ سے نماز ايجاد كر لے جو شريعت ميں وارد نہيں تو يہ نئى بدعت ہے اللہ تعالى نے ايسا كام ايجاد كرنے والے كو آگ كى وعيد سنائى ہے.
دوسرى قسم:
اصلا كسى شرعى عمل ميں نئى صفات ايجاد كر كے بدعت كرنا، مثلا نماز كے بعد اذكار اور دعا مشروع و محدود و معروف ہے، اس ميں كوئى بھى مسلمان مخالفت نہيں كرتا، اب اگر كچھ لوگ يہ كہيں كہ جب نماز كے بعد ذكر مشروع ہے تو ہم اكٹھے ہو كر بيك آواز ذكر كرتے ہيں تو يہ بدعت ہو گى.
اور ہم انہيں كہينگے يا تو تم لوگ يہ طريقہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ سے اچھا سمجھتے ہو، جس كے نتيجہ ميں تم لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ سے بہتر اور احسن طريقہ پر ہو، جو مسلمان شخص بھى كلمہ پڑھتا ہے ايسا نہيں كہےگا، يا پھر يہ غلط اور بدعت ہے اس كو ترك كرنا ضرورى ہے.
اس سے يہ واضح ہوا كہ اس عمل كو بدعت كہنے كا مطلب يہ نہيں كہ سورۃ الفاتحہ پڑھنا غلط ہے، بلكہ اس طريقہ پر جو سوال ميں بيان كيا گيا ہے سورۃ فاتحہ پڑھنا بدعت ہو گى صحابہ كرام كے ساتھ ہمارى محبت تابعين سے زيادہ نہيں ہے، بلكہ صحابہ كرام تو اللہ اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت زيادہ محبت ركھتے تھے، ان سے يہ منقول نہيں كہ انہوں نے اپنے نبى كى وفات كے بعد ايسا كيا ہو، سارى كى سارى خير تو اسى ميں ہے كہ ان كى اتباع كى جائے اور ان كےمنہج پر چلا جائے، اور ان كى مخالفت اور ان كے منہج سے دورى ميں ہى ہر قسم كا شر و برائى ہے.
پھر ان كا على رضى اللہ تعالى عنہ كو وفات كى مناسبت سے اس عمل كے ليے خاص كرنا ان ميں غلو كى طرف اشارہ كرتا ہے، اور يہ مذموم تشيع بدعت ميں شامل ہو گى، اس ليے اس سے بچنا اور احتراز كرنا ضرورى ہے.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو سنت پر ثابت قدم ركھے اور ہميں بدعات سے بچائے. آمين يا رب العالمين.
مزيد آپ سوال نمبر (10843 ) اور (864 ) اور (11324 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں ان ميں تفصيلى بيان ہوا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات