يہ تو معلوم ہى ہے كہ مسجد ميں ميت دفن كرنى جائز نہيں، اور جس مسجد ميں بھى قبر ہو وہاں نماز ادا كرنا جائز نہيں ہے، لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور كچھ صحابہ كى قبروں كو مسجد نبوى ميں داخل كرنے كى حكمت كيا ہے ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر مسجد ميں داخل كرنے كى حكمت كيا ہے ؟
سوال: 21960
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى يہوديوں اور عيسائيوں پر لعنت كرے انہوں نے اپنے انبياء كى قبروں كو مسجد بنا ليا "
صحيح بخارى كتاب الجنائز حديث نمبر ( 330 ) صحيح مسلم المساجد حديث نمبر ( 529 ).
حديث ميں ثابت ہے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ام سلمہ اور ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہما نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ايك كنيسہ اور چرچ كا ذكر كيا جو انہوں نے جبشہ ميں ديكھا تھا اور اس ميں تصاوير اور مجسمے ركھے ہوئے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ وہ لوگ ہيں جب ان ميں كوئى نيك اور صالح شخص فوت ہو جاتا تو اس كى قبر پر مسجد بنا ليتے، اور اس ميں يہ تصاوير بنا كر ركھ ديتے، اللہ تعالى كے ہاں سب سے برى ترين مخلوق يہى ہيں "
صحيح بخارى كتاب الصلاۃ حديث نمبر ( 434 ) صحيح مسلم كتاب المساجد حديث نمبر ( 528 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں جندب بن عبد اللہ البجلى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" يقينا اللہ تعالى نے مجھے اپنا خليل بنايا ہے جس طرح ابراہيم عليہ السلام كو خليل بنايا تھا، اگر ميں اپنى امت ميں سے كسى كو خليل بناتا تو ابو بكر كو بناتا، خبردار تم سے پہلے لوگ اپنے انبياء اور صالحين كى قبروں كو مسجديں بناليتے تھے، چنانچہ تم قبروں كو مسجديں مت بنانا ميں تمہيں اس سے منع كرتا ہوں "
صحيح مسلم كتاب الجنائز حديث نمبر ( 970 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ہى جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر كو پختہ كرنے اور اس پر بيٹھنے اور اس پر تعمير كرنے سے منع فرمايا "
صحيح مسلم كتاب الجنائز حديث نمبر ( 970 ).
يہ صحيح احاديث اور اس معنى ميں دوسرى سب احاديث قبروں پر مسجد بنانے كى حرمت، اور ايسا كرنے والے كے ملعون ہونے پر دلالت كرتى ہيں، اسى طرح قبروں پر كچھ تعمير كرنے اور انہيں پختہ كرنے اور ان پر قبے اور گنبد بنانے كى حرمت پر بھى دلالت كرتى ہيں، كيونكہ يہ سب كچھ شرك كے وسائل، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر ان قبروں ميں موجود شخصيات كى عبادت ميں شامل ہوتا ہے، جيسا كہ پہلے اور آج كے دور ميں ہو چكا ہے.
چنانچہ ہر علاقے ميں بسنے والے مسلمانوں پر واجب ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ممنوع كردہ چيز سے اجتناب كريں، اور لوگوں كى اكثريت كے افعال كے دھوكہ ميں نہ آئيں، كيونكہ حق مومن كى گمشدہ ميراث ہے جب اور جہاں اس يہ حق ملے وہ اسے حاصل كر ليتا ہے.
اور پھر حق كتاب و سنت كے دلائل سے معلوم ہوتا ہے نہ كہ لوگوں كے خيالات اور ان كى آراء اور اعمال سے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے دونوں صحابيوں كو مسجد ميں دفن نہيں كيا گيا، بلكہ انہيں تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے گھر ميں دفن كيا گيا تھا.
ليكن جب وليد بن عبد الملك كے دور ميں مسجد نبوى كى توسيع كى گئى تو پہلى صدى كے آخر ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا حجرہ مبارك بھى مسجد ميں شامل كر ديا گيا، اوراس كا يہ عمل مسجد ميں دفن كے حكم ميں نہيں آتا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے دونوں صحابيوں كو مسجد كى زمين ميں منتقل نہيں كيا گيا، بلكہ جس حجرہ ميں ان كى قبريں تھيں اسے توسيع كى غرض سے مسجد ميں داخل كيا گيا ہے.
چنانچہ يہ عمل كسى كے ليے بھى قبروں پر مسجد بنانے يا پھر قبروں پر تعمير كرنے، يا مسجد ميں دفن كرنے كى دليل نہيں بن سكتى، كيونكہ ابھى ہم نے اوپر اس كى ممانعت والى احاديث بيان كى ہيں، اور وليد بن عبد الملك كا يہ عمل قابل حجت نہيں، كيونكہ يہ عمل سنت نبويہ كے مخالف ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ الشيخ ابن باز ( 4 / 337 )