جب کوئی عمرہ کرنے کیلئے جائے اور بیت اللہ میں جمعہ کے دن فجر کے بعد پہنچے تو کیا اسے مسجد میں عمرہ مکمل کرنے کے بعد احرام کی حالت میں انتظار کرنے کی اجازت ہے کہ اسی حالت میں نہائے بغیر جمعہ پڑھ لے، یا کہ احرام کھول کر نہانا لازمی ہے؟
اسی طرح مسجد الحرام میں جمعہ کی ادائیگی کیلئے کعبہ کے قریب ہونا افضل ہے یا امام کے قریب ہونا افضل ہے، اسی طرح مسجد الحرام کے کچھ احکام بھی بیان کر دیں۔
احرام کے کپڑوں میں نمازپڑھنے اور تاخیر سے احرام کھولنے کا حکم
سوال: 219923
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عمرے کیلئے طواف اور سعی کرنے والے کیلئے حلق اور تقصیر مؤخر کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کوئی احرام سے منافی کام نہ کرے، مثلاً: سر ڈھانپنا، خوشبو لگانا، ناخن کاٹنا وغیرہ، اور اپنے بال منڈوانے یا کٹوانے تک ان امور سے اجتناب کرے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (138178) کا جواب ملاحظہ کریں۔
لیکن جس شخص نے بال منڈوا لئے ہیں یا کٹوا لیے ہیں تو وہ عمرے سے فارغ ہو چکا ہے، چاہے وہ احرام کی چادریں اتارے یا نہ اتارے، اس کیلئے ہر وہ چیز حلال ہو چکی ہے جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھی۔
چنانچہ کپڑے پہننے کیلئے فوری یا تاخیر سے اقدامات اس کی موجودہ صورت حال کے مطابق ہی ہیں، جیسے اسے آسانی ہو ویسے کر لے، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ احرام کی چادریں اتار کر اپنا عام لباس پہن لے، تا کہ نماز سکون سے ادا کرے بہر حال اسے مکمل اختیار حاصل ہے اس پر کوئی تنگی نہیں ہے۔
دوم:
جمعہ کے دن سنت یہ ہے کہ مسلمان غسل کر کے خوشبو کا استعمال کرے، اور اپنے کپڑوں میں سے بہترین کپڑے زیب تن کرے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(جو شخص جمعہ کا غسل کر کے اچھا لباس پہنے اور اپنے پاس دستیاب خوشبو لگائے اور جمعہ پڑھنے کیلئے آئے، مسجد میں لوگوں کی گردنیں مت پھلانگے، اور حسب مقدور نوافل ادا کرے اور جب امام منبر پر آئے تو خاموشی سے سنے، یہاں تک کہ نماز مکمل ہو جائے تو اس کا یہ عمل اس جمعہ سے لیکر گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا)
ابو داود: (290)، شیخ البانی نے اسے "صحیح ابو داود" میں حسن کہا ہے۔
اس بنا پر افضل اور کامل طریقہ یہی ہے کہ اگر تنگی نہ ہو تو اپنے عمرہ کا احرام فوری کھول دے؛ تاکہ نماز جمعہ کیلئے غسل، خوشبو، اور بہترین لباس زیب تن کر سکے۔
سوم:
خطبہ کے دوران نماز کیلئے امام کے قریب بیٹھنا مستحب ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص جمعہ کے دن خود بھی غسل کرے اور غسل کروائے، پھر مسجد میں جلدی پہنچے ، پیدل چل کر جائے سواری استعمال نہ کرے، امام کے قریب بیٹھے اور غور سے سنے کوئی لغو بات نہ کرے تو اس کیلئے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہوگا)
ابو داود: (292) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح الجامع" (6405) میں صحیح کہا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام کے قریب بیٹھنا مستحب ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص جمعہ کے دن خود بھی غسل کرے اور غسل کروائے، پھر مسجد میں جلدی پہنچے ، پیدل چل کر جائے سواری استعمال نہ کرے، امام کے قریب بیٹھے اور غور سے سنے کوئی لغو بات نہ کرے تو اس کیلئے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہوگا)" انتہی
" المغنی " (2/103)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسجد الحرام یا دیگر مساجد میں امام کے قریب بیٹھنا دور بیٹھنے سے افضل ہے " انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (13/30)
لہذا امام کے قریب ہو کر بیٹھنا بیت اللہ کے قریب ہوکر بیٹھنے سے افضل ہے۔
چہارم:
مسجد الحرام کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ: یہ سب سے افضل ترین مسجد ہے، اور نمازی کیلئے یہاں سب سے زیادہ ثواب ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسجد الحرام میں ایک نماز دیگر مساجد کی نمازوں سے ایک لاکھ گناہ افضل ہے)
ابن ماجہ: (1396) اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ " میں صحیح کہا ہے۔
مسجد الحرام کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالی نے اسے امن والا بنایا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا )
ترجمہ: اور ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کیلئے پر امن جائے پناہ بنایا ہے۔[البقرة :125]
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (3748) کا جواب ملاحظہ کریں۔
مسجد الحرام سے متعلق خصوصا اور حدود حرم سے متعلق عموماً احکامات موجود ہیں جنہیں اہل علم نے اپنی اپنی کتب میں شرعی نصوص کی روشنی میں بیان کیا ہے، اس بارے میں مزید کیلئے دیکھیں کتاب: " أحكام الحرم المكي " از شیخ سامی بن محمد صقیر حفظہ اللہ، اس میں فاضل مؤلف نے حرم مکی اور مسجد الحرام سے متعلق احکامات و مسائل ذکر کیے ہیں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات