ایسے پانی کا کیا حکم ہے جس میں کوئی پاک چیز شامل ہو جائے، تو کیا اس سے وضو یا غسل کرنا جائز ہے؟
پاک چیز کی وجہ پانی کے اوصاف میں تبدیلی آ گئی تو اس سے وضو اور غسل کرنے کا حکم
سوال: 220105
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پاک پانی میں اگر کوئی پاک چیز قصداً شامل کی جائے تو پھر اس کی تین حالتیں ہو سکتی ہیں:
اول:
اگر پاک پانی میں کوئی پاک چیز شامل ہو اور پانی کے تین اوصاف رنگت، بو اور ذائقہ میں سے کچھ بھی تبدیل نہ ہو تو پاک پانی کی پاکیزگی اب بھی باقی ہے؛ کیونکہ ابھی بھی اسے پانی کہا جا سکتا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/25)میں کہتے ہیں:
"جب وضو کے پانی میں کوئی ایسی طاہر چیز شامل ہو جائے جس سے پانی کا کوئی وصف تبدیل نہ ہو تو اس سے وضو کرنے کے جواز کے متعلق ہمیں اہل علم کے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔"
چنانچہ اگر پانی میں لوبیا، چنا، یا پھول یا زعفران وغیرہ پانی میں گر جائے اور اس کی وجہ سے پانی کا ذائقہ، رنگت یا بو تبدیل نہ ہو تو اس سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے۔
اسی طرح اگر پانی کے ان اوصاف میں سے کوئی وصف معمولی سا تبدیل ہو تو تب بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس کی دلیل ام ہانی رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک ہی ایسے برتن سے غسل کیا جس برتن میں گوندھے ہوئے آٹے کے نشانات تھے۔" اس حدیث کو نسائی: (240) نے روایت کیا ہے اور نووی نے اسے "خلاصة الأحكام " (1/67) میں اور البانی نے " الإرواء " (27) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "لگتا یہی ہے کہ اس برتن میں آٹے کے نشانات زیادہ نہیں تھے۔" ختم شد
" مرقاة المفاتيح " (2/457)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اوصاف میں تبدیلی تھوڑی ہو تب بھی وضو جائز ہے، مثلاً: تھوڑی سی زعفران پانی میں گر گئی جس سے پانی کے رنگت میں ہلکی سی زردی آ گئی، یا صابن یا آٹا گر گیا تو پانی سفید سا اتنا ہو گیا کہ اس پانی کو زعفران کا پانی، یا صابن کا پانی یا آٹے کا پانی نہ کہا جائے تو صحیح موقف کے مطابق یہ پانی پاک ہے؛ کیونکہ اسے صرف پانی کہا جا سکتا ہے۔" ختم شد
" المجموع شرح المهذب " (1/103)، امام نووی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اسے مائے مطلق کہا جا سکتا ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جب تک اسے گرنے والی چیز کی طرف منسوب نہ کیا جائے، مثلاً یہ نہ کہا جائے کہ یہ صابن کا پانی ہے، تو اس سے وضو میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
" الانتصار في المسائل الكبار" از ابو الخطاب كَلْوَذانی (1/122)
دوم:
پاک پانی میں پاک چیز اتنی مقدار میں گر جائے کہ اسے عام پانی کہا ہی نہ جائے، تو پھر اس سے وضو کرنا صحیح نہیں ہے، سب کا ایک ہی موقف ہے، مثلاً: پانی میں چائے ڈالنے سے پانی کا رنگ اور ذائقہ بدل جائے کہ اسے پانی نہ کہا جائے بلکہ اسے قہوہ کہا جائے، اسی طرح پانی میں گوشت ابالا جائے ، تو یہ پانی نہیں رہے گا بلکہ یخنی بن جائے گا تو اس سے وضو کرنا جائز نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/20)میں کہتے ہیں:
"جس پانی میں کوئی پاک چیز شامل ہو اور پانی کا نام بدل جائے، پانی پر اس چیز کے اثرات غالب ہو جائیں کہ پانی سے کوئی دوسری چیز رنگی جا سکے، یا روشنائی کا کام دے، یا سرقہ بن جائے، یا یخنی بن جائے۔ اسی طرح جس پانی میں کوئی پاک چیز پکائی جائے اور پانی کے اوصاف بدل جائیں مثلاً: ابلے ہوئے لوبیا کا پانی لوبیا ابلنے سے تبدیل ہو جاتا ہے اس لیے اس سے وضو اور غسل کرنا جائز نہیں ہے، ہمیں اس بارے میں کسی کے اختلافی موقف کا علم نہیں ہے۔" مختصراً ختم شد
امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کسی بھی ایسے پانی سے وضو نہ کر جس کو سادہ پانی نہ کہا جا سکتا ہو۔" ختم شد
" الانتصار في المسائل الكبار" از ابو الخطاب كَلْوَذانی (1/122)
سوم:
سادہ پانی کے اوصاف کسی پاک چیز کے شامل ہونے کی وجہ سے بدل تو جائیں لیکن پھر بھی اس پر پانی کا لفظ بولا جا سکتا ہو، مثلاً: پانی میں صابن شامل ہو گئی تو رنگت بدلنے اسے صابن کا پانی کہا جائے، یا چنے گرنے کی وجہ سے ذائقہ بدلنے پر چنوں کا پانی بن جائے، یا زعفران کے گرنے سے پانی کی رنگت تبدیل ہو جائے لیکن اسے زعفران کا پانی کہا جائے، تو ایسے پانی سے طہارت حاصل کرنے پر علمائے کرام کا اختلاف ہے۔
چنانچہ جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ پاک چیزوں کی وجہ سے بدلا ہوا پانی خود تو پاک ہے لیکن یہ دوسری چیزوں کے لیے مطہر یعنی پاک کرنے والا نہیں ہے؛ کیونکہ اب یہ صرف پانی نہیں ہے ۔
مزید کے لیے: " المغنی" (1/21) اور " الكافی " از ابن عبد البر (1/155) نیز " المجموع " (1/103) کا مطالعہ کریں۔
جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد سے ایک روایت کے مطابق یہ پانی بھی دوسری چیزوں کو پاک کرنے والا ہے؛ کیونکہ اسے پانی کہا جا سکتا ہے، یہی موقف ابن حزم کا ہے، اسی کو ابن المنذر اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے اپنایا ہے۔ معاصرین میں سے دائمی فتوی کمیٹی ، الشیخ ابن باز، اور الشیخ ابن عثیمین نے اختیار کیا ہے۔
چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی پاک پانی جس میں کوئی پاک چیز شامل ہو تو اس سے پانی کی رنگت، بو اور ذائقہ بدل جائے کہ اسے پھر بھی پانی کہا جا سکتا ہو، تو اس سے وضو کرنا جائز ہے، اور اسی طرح غسل جنابت کرنا بھی جائز ہے۔۔۔ چاہے یہ پاک چیز کستوری ہو، یا شہد ہو یا زعفران کوئی اور چیز ہو۔" ختم شد
" المحلى " (1/200)
یہاں سبب اختلاف یہ ہے کہ: علمائے کرام کے ہاں طہارت سادہ پانی سے حاصل ہوتی ہے، چنانچہ سرکے والے پانی، یا گلاب وغیرہ کے پانی سے طہارت حاصل نہیں ہو گی۔
تو جس پانی میں کوئی طاہر چیز شامل ہو گئی ہے اسے سادہ پانی نہیں کہہ سکتے، بلکہ یہ مقید پانی ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/21)میں کہتے ہیں:
"امام احمد سے ان کے متعدد شاگردوں نے ایسے پانی سے وضو کرنے کا جواز نقل کیا ہے، یہی امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا موقف ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا یعنی جب تمہیں کوئی بھی پانی نہ ملے تو پھر تم تیمم کر لو۔ یہ حکم کسی بھی پانی کے متعلق ہے؛ کیونکہ لفظ "ماء" نکرہ اور نفی کے سیاق میں ہے جو اس کے عام ہونے کی دلیل ہے، اس لیے اس طرح کے پانی کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کے پاس پانی موجود ہے۔
مزید یہ کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام بھی سفر پر جایا کرتے تھے ، سفروں میں ان کے مشکیزے چمڑے کے بنے ہوتے تھے، اور ایسے مشکیزے میں موجود پانی کا ذائقہ بدل جاتا ہے، تو ان کے پاس مشکیزے کا پانی موجود ہونے کے باوجود یہ کہیں نہیں ملتا کہ انہوں نے تیمم کیا ہو؛ نیز چونکہ پانی اصل میں پاک تھا، اور اس میں پاک چیز ہی شامل ہوئی ہے جس نے اس سے پانی کا نام سلب نہیں کیا، نہ ہی پانی کی کثافت میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی پانی سے بہنے کی خوبی سلب کی ہے۔" ختم شد
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تو جب تک اسے پانی کہہ سکتے ہیں، اور اس پانی پر کسی اور چیز کے اجزا غالب نہیں آئے تو یہ پانی پاک ہی ہے، یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا ایک روایت کے مطابق موقف ہے، یہی وہ موقف ہے جو امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے اکثر جوابات میں ذکر کیا ہے۔
اور یہی موقف صحیح ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ
ترجمہ: اور اگر تم مریض ہو، یا سفر پر ہو، یا تم میں سے کوئی پاخانہ کرے، یا تم میں سے کسی نے بیویوں سے تعلق قائم کیے ہوں اور تم پانی نہ پاؤ تو پھر پاکیزہ مٹی سے تیمم کر لو، اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو۔ [المائدہ: 6]
تو یہاں { فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً } میں لفظ ماء نفی کے سیاق میں ہے جو کہ ہمہ قسم کے پانی کو شامل ہے، اس میں پانی کی کسی بھی قسم میں کوئی فرق نہیں ہے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى" (21/ 26)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بعد مزید کہا:
"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محرم شخص کو بیری کے پانی سے غسل دینے کا حکم دیا"، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیٹی کو بھی بیری کے پانی سے غسل دینے کا حکم دیا تھا۔ ایسے ہی ایک نو مسلم کو بھی بیری کے پانی سے غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بیری کے پتوں سے پانی کی رنگت وغیرہ بدل جاتی ہے، چنانچہ اگر پانی کے اوصاف بدلنے سے پانی کی طہوریت ختم ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے ذریعے غسل دینے کا حکم نہ دیتے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى" (21/ 26)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ: پینے والے پانی میں کلور نامی کیمیکل شامل کیا جاتا ہے اس سے پانی کا رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے، تو کیا اس پانی سے وضو کیا جا سکتا ہے؟
تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا:
"پانی میں ایسی پاک چیزیں اور ادویات اتنی مقدار میں شامل کرنا جس سے پانی میں موجود نقصان دینے والی چیزیں ختم ہو جائیں ، اور اسے پانی بھی کہا جا سکتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے پانی کے کچھ اوصاف تبدیل ہی کیوں نہ ہو جائیں۔" ختم شد
" فتاوى الشيخ ابن باز" (10/19)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب