جانوروں کے چمڑوں سے بنی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟
جانوروں کے چمڑوں سے بنی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے کا حکم
سوال: 221753
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
چمڑے کی صنعت بہت زیادہ پھیل چکی ہے، اب چمڑے سے بیگ، کوٹ، جوتے اور بیلٹ وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔
"مصنوعی چمڑا" چاہے پیٹرولیم مصنوعات سے تیار کیا گیا ہو یا کسی اور چیز سے اسے استعمال کرنا جائز ہے اور یہ پاک ہے؛ کیونکہ چیزوں کے بارے میں بنیادی اصولی حکم طہارت اور جواز کا ہے۔
جبکہ ایسی چیزیں جنہیں جانوروں کے چمڑوں سے بنایا جاتا ہے تو اس کا حکم اس حیوان کے ساتھ منسلک ہے جس جانور کا وہ چمڑا ہے۔
لہذا جانوروں کے چمڑے کی کچھ صورتیں ہیں:
1-چمڑا کسی ماکول اللحم جانور کا ہو اور اسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو۔
ایسے چمڑے تمام اہل علم کے اجماع کے مطابق بالکل پاک ہیں؛ کیونکہ یہ جانور کے شرعی طریقے سے ذبح ہونے کی وجہ سے پاک ہو چکے ہیں، مثلاً: اونٹ ، گائے، بکری، ہرن، اور خرگوش وغیرہ کا چمڑا، چاہے انہیں ابھی رنگا گیا ہے یا نہیں۔
چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جس جانور کا گوشت کھایا جائے اور اسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو تو اس کا چمڑا پاک ہے، اسے استعمال کرنا اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے۔" ختم شد
مراتب الاجماع: (23)
2-چمڑا تو ماکول اللحم جانور کا ہو، لیکن اسے شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو، بلکہ یا تو جانور مر گیا تھا ، یا ذبح تو کیا گیا لیکن غیر شرعی طریقے سے اسے ذبح کیا گیا۔
تو ایسے جانور کا چمڑا نجس ہو گا؛ کیونکہ چمڑا مردار کے جسم کا حصہ ہوتا ہے اور مردار جانور نجس ہوتا ہے، یہ چمڑا رنگنے کے بعد ہی قابل استعمال ہو سکتا ہے، لہذا جب اسے رنگ لیا جائے گا تو یہ چمڑا پاک ہو جائے گا۔
رنگنے کا مطلب یہ ہے کہ: چمڑے کو مختلف مراحل سے گزار کر اس قابل بنا لینا کہ اس میں سے بد بو اور رطوبت دونوں ہی ختم ہو جائیں، قدیم زمانے میں اس کے لیے جنگلی کیکر کے پتے، بلوط، شب گل، اور انار کے چھلکے استعمال کرتے تھے۔۔۔
جبکہ جدید دور میں چمڑوں کی رنگائی کا کام بڑی بڑی فیکٹریوں میں کیمیکل استعمال کر کے کیا جاتا ہے جس سے چمڑا صاف ہو جاتا ہے اور قابل استعمال بن جاتا ہے۔۔۔ لہذا رنگائی کا مطلب یہ ہے کہ جس سے چمڑے کی بو اور رطوبت وغیرہ ختم ہو جائے اور چمڑا قابل استعمال بن جائے۔
لہذا جتنی بھی چمڑے کی مصنوعات اس وقت بیگ، اور جوتوں کی شکل میں نظر آتی ہیں یہ سب ہی اس مرحلے سے گزری ہوتی ہیں، ان کا چمڑا رطوبت اور خون وغیرہ سے بالکل پاک صاف ہوتا ہے۔
چمڑے کی رنگائی کے بعد اس کے پاک ہونے کی دلیل صحیح مسلم: (366) میں سیدنا ابو الخیر کہتے ہیں کہ انہوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ : ہم مغربی عربستان میں رہتے ہیں وہاں پر بربر اور مجوسی قوم ہیں، تو ہمارے پاس ان کا ذبح کیا ہوا دنبہ لایا جاتا ہے، لیکن ہم ان کا ذبیحہ نہیں کھاتے، اسی طرح وہ ہمارے پاس مشکیزوں میں چربی بھر کر لاتے ہیں [تو ان کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟] تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بابت دریافت کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چمڑے کی رنگائی اسے پاک کر دیتی ہے۔)
اسی طرح صحیح مسلم: (363) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ: سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی باندی کو ایک بکری تحفے میں دی گئی، اور وہ بکری مر گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم نے اس کی کھال کیوں نہیں اتاری؟ تم اس کی کھال رنگ کر استعمال میں لے آؤ۔) تو لوگوں نے بتلایا کہ: یہ بکری مردار ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسے صرف کھانا حرام ہے۔ [چمڑے کو رنگ کر استعمال کرنا حرام نہیں۔] )
تو اس سے معلوم ہوا کہ ماکول اللحم مردار جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہو جائے گی۔
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہی موقف جمہور علمائے کرام ، اور ائمہ مفتیان کا ہے۔ ابن القصار نے ذکر کیا ہے کہ یہی موقف امام مالک رحمہ اللہ کا آخری موقف تھا، یہی موقف ابو حنیفہ اور شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔" ختم شد
" شرح صحیح البخاری" (5/441)
3-چمڑا کسی درندے جانور کا ہو ، مثلاً: شیر، چیتا، فہد، بھیڑیا، ریچھ، گیدڑ اور نیولا وغیرہ تو ان تمام حیوانوں کا چمڑا نجس ہے چاہے انہیں ذبح کیا جائے، یا یہ طبعی موت مر جائیں، یا انہیں قتل کیا جائے؛ کیونکہ انہیں ذبح کر بھی دیا جائے تو یہ حلال نہیں ہیں، اور یہ کبھی بھی کھانے کے لیے قابل نہیں ہو سکتے؛ لہذا یہ جانور ہر حال میں نجس ہی رہیں گے۔
البتہ علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ان کا چمڑا رنگنے سے پاک ہو جائے گا یا نہیں؟
تو ہم رنگنے کے بعد ان کے چمڑے کے پاک ہونے کا موقف اپنائیں یا نہیں ہر دو حالت میں ان کے چمڑے کو استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ صحیح روایات میں ان کے چمڑے کو استعمال کرنے سے ممانعت آئی ہے۔
اس کی دلیل ابو ملیح اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے درندوں کے چمڑے کو بچھا کر اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1771) نے روایت کیا ہے اور البانی و نووی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے درندوں کا چمڑا پہننے اور اس کی زین بنانے سے منع فرمایا۔ اس حدیث کو ابو داود: (4131) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تو یہ احادیث واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ درندوں کا چمڑا مطلق طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے اہل علم اور دیگر کا یہ موقف ہے کہ درندوں کا چمڑا چاہے رنگ بھی لیا جائے مکروہ ہے۔ یہی موقف عبد اللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، نیز انہوں نے درندوں کا چمڑا پہن کر نماز پڑھنے اور اسے لباس بنانے پر سخت موقف اختیار کیا ہے۔" ختم شد
سنن ترمذی: (1771)
جب کہ کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ: درندوں کے چمڑے کے متعلق ممانعت انہیں رنگنے سے پہلے ہے۔ تو امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ موقف کمزور ہے؛ کیونکہ اگر ایسا ہی ہو تو درندوں کے چمڑے کو خاص کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، رنگنے کے بعد تو دیگر چمڑے بھی پاک ہو جاتے ہیں۔" ختم شد
" المجموع شرح المهذب " (1/221)
درندوں کے چمڑے کو استعمال کرنے سے ممانعت کی علت: یہ ہے کہ انہیں استعمال کرنے سے دل میں تکبر پیدا ہو گا، نیز اس طرح جابر و ظالم لوگوں کے ساتھ مشابہت بھی ہوتی ہے، نیز یہ کہ ایسا لباس عیش پرست لوگوں کا ہوتا ہے۔
اس بنا پر: درندوں کا چمڑا استعمال نہیں کیا جا سکتا چاہے ہم رنگنے کے بعد ان کی طہارت کا حکم لگائیں یا نہ لگائیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (9022 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
4- چمڑا کسی غیر ماکول اللحم ایسے جانور کا ہو جو درندہ بھی نہیں ہے، مثلاً: سانپ، ہاتھی، گدھا، بندر اور خنزیر وغیرہ۔
ان کا چمڑا بھی نجس ہے، چاہے انہیں ذبح کیا جائے، یا یہ طبعی موت مریں یا انہیں شکار کر کے قتل کیا جائے؛ کیونکہ یہ جانور اگرچہ ذبح بھی کر دئیے جائیں تو حلال نہیں ہوں گے، نہ ہی کھانے کے قابل ہوں گے، اس لیے یہ ہر حال میں ہی نجس ہی رہیں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کا چمڑا رنگ لیا جائے تو کیا پاک ہو جائے گا یا نہیں؟ اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں:
ایک موقف یہ ہے کہ: چمڑا رنگنے سے پاک ہو جاتا ہے سوائے کتے اور خنزیر کے چمڑے کے۔
یہ موقف ابن عبد البر رحمہ اللہ کے مطابق : حجاز، عراق اور شام کے جمہور فقہائے کرام کا ہے۔
" الاستذكار " (5/ 295)
اس موقف کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جب چمڑا رنگا جائے تو وہ پاک ہو گیا۔) مسلم: (366) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (کوئی بھی چمڑا رنگا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1728) نے روایت کیا ہے اور البانی و ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث مبارکہ میں عربی لفظ: { الْإِهَابُ } سے مراد رنگنے سے پہلے والا چمڑا ہوتا ہے، تو یہ لفظ عام ہے اس میں ہر قسم کا چمڑا آ جاتا ہے۔
تاہم اس سے کتے اور خنزیر کو مستثنی قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ یہ دونوں زندہ ہوں تو نجس عین ہیں، تو جانور کا زندہ ہونا جانور کو پاک قرار دینے کے لیے رنگنے سے زیادہ طاقت رکھتا ہے، لہذا اگر زندگی کتے اور خنزیر کو پاک قرار نہیں دے سکی تو رنگنے سے ان کی جلد کیسے پاک ہو سکتی ہے۔
"اس لیے جب چمڑا رنگا جاتا ہے تو نجاست کے اسباب رطوبت اور خون دونوں ختم ہو جاتے ہیں۔" ختم شد
" الموسوعة الفقهية " (20/230)
کتا اور خنزیر دونوں ہی نجس العین ہیں:
"یعنی ان کے تمام کے تمام جسمانی اجزا نجس ہیں چاہے یہ زندہ ہو یا مردہ، لہذا ان کی نجاست اس لیے نہیں ہے کہ ان میں خون ہے یا رطوبت ہے، بلکہ یہ فی نفسہٖ نجس ہیں، چنانچہ ان کا پاک ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔" ختم شد
" الموسوعة الفقهية" (20/230)
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (جو بھی چمڑا رنگا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔)اس میں ہر قسم کا چمڑا شامل ہے، لیکن جمہور سلف صالحین اس بات پر متفق ہیں کہ خنزیر کی کھال اس میں شامل نہیں ہے۔" ختم شد
" التمهيد " (4/178)
آپ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
" آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (جو بھی چمڑا رنگا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔)کا تقاضا تو یہ ہے کہ کوئی بھی رنگا جائے تو پاک ہو جائے گا؛ کیونکہ لفظ عام ہے، اور اس میں سے کسی کو بھی مخصوص نہیں کیا گیا ۔۔۔ یہی جمہور علمائے کرام اور ائمہ فتوی کا موقف ہے تاہم انہوں نے خنزیر کے چمڑے کو اس سے مستثنی قرار دیا ہے؛ کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان : (جو بھی چمڑا رنگا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔)کے عموم میں داخل نہیں ہے؛ کیونکہ خنزیر عینی طور پر حرام ہے چاہے زندہ ہو یا مردہ، اور اس کے چمڑے کا بھی وہی حکم ہے جو اس کے گوشت کا ہے، لہذا اگر خنزیر کو ذبح کرنے سے خنزیر کا گوشت اور چمڑا پاک نہیں ہوتے ، تو رنگنے سے بھی اس کا چمڑا پاک نہیں ہو گا۔" ختم شد
" الاستذكار " (5/ 305)
دوسرا موقف: چمڑا رنگنے سے صرف ماکول اللحم جانور کی کھال پاک ہو گی، لہذا غیر ماکول اللحم جانور کی کھال رنگنے سے پاک نہیں ہو گی، یہ موقف امام اوزاعی، امام احمد کا دوسری روایت کے مطابق یہ موقف ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنے دو اقوال میں سے اسی کو اپنایا ہے۔
دیکھیں: "شرح صحیح مسلم"، از امام نووی: (4/54 )۔ "الفروع"، از ابن مفلح: (1/102)۔ "مجموع الفتاوی"از ابن تیمیہ : (21/95 )
یہی موقف معاصر علمائے کرام کی بڑی تعداد نے اپنایا ہے، جیسے کہ الشیخ محمد بن ابراہیم، الشیخ ابن باز، اور الشیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ جمیعا ۔
ان کی دلیل سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر ایک عورت کے پاس سے پانی منگوایا، تو اس عورت نے کہا: میرے پاس صرف مردار کی کھال سے بنے ہوئے مشکیزے میں پانی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا تو نے اسے رنگا نہیں تھا؟) اس نے کہا: کیوں نہیں، رنگا تو تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (رنگنے سے وہ پاک ہو گیا۔) اس حدیث کو نسائی: (4245)نے روایت کیا ہے اور دارقطنی، نووی اور البانی رحمہم اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/94)میں اس حدیث سے وجہ استدلال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
[آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں { ذَكَاتُهَا} کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ جانور ذبح کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مترجم] "تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رنگائی کو ذبح سے تشبیہ دی اور ذبح کرنے سے صرف ماکول اللحم جانور کا گوشت اور کھال پاک ہوتے ہیں۔" ختم شد
اس مسئلے میں اختلاف کا نتیجہ تب سامنے آتا ہے جب غیر ماکول اللحم جانور کے چمڑے سے بنی ہوئی اشیا پر حکم لگایا جاتا ہے، چنانچہ جو اہل علم یہ سمجھتے ہیں کہ چمڑا رنگنے سے پاک ہو گیا ہے وہ ایسے لیدر کی بنی ہوئی چیزوں کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں، اور جو اہل علم یہ سمجھتے ہیں کہ غیر ماکول اللحم جانور کے چمڑے کو رنگنے سے بھی پاک نہیں کیا جا سکتا تو وہ ایسے چمڑے کی بنی ہوئی چیزوں کے استعمال اور نیچے بچھانے کو بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ:
چمڑے اور لیدر کی بنی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے کے حوالے سے ضابطہ کیا ہے؟ کسے استعمال کرنا جائز اور کسے استعمال کرنا ناجائز ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ بات سب کے علم میں ہے کہ مارکیٹ میں جو چیز بھی لیدر کی بنی ہوئی آتی ہے یہ رنگے ہوئے چمڑے کی ہوتی ہیں، اور رنگا ہوا چمڑا بہت سے علمائے کرام کے ہاں پاک ہے، چاہے وہ چمڑا کسی نجس جانور کا ہی کیوں نہ ہو۔
جبکہ صحیح موقف یہ ہے کہ اگر چمڑا کسی نجس جانور کا ہے تو وہ پاک نہیں ہے؛ کیونکہ جس جانور کا عین نجس ہو اس کا چمڑا پاک نہیں ہو سکتا چاہے اسے پاک کرنے کے لیے سمندر کا سارا پانی استعمال کر لیا جائے۔
لیکن اگر چمڑا ایسے جانور کا ہے کہ جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، لیکن آپ کو نہیں پتہ کہ اس چمڑے کو حاصل کرنے کے لیے اسے ذبح کیا گیا تھا یا وہ مردار تھا، تو اس کی فکر آپ کو کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ اگر یہ کسی ماکول اللحم مردار کی کھال ہے، یا کسی غیر شرعی طریقے سے ذبح کیے گئے ماکول اللحم جانور کی کھال ہے تو جب اسے رنگ دیا گیا تو یہ پاک ہو گئی، مثلاً: کچھ اوور کوٹ ایسے ہیں جن کی اندرونی جانب بھیڑ کے بچے کی کھال اون سمیت لگی ہوتی ہے، تو ہم کہیں گے: اسے پہن لیں، کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ فرض کریں کہ اگر وہ بچہ مردار تھا بھی سہی یا اسے غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا تھا تو جب اس کی کھال کو رنگ دیا گیا تو وہ پاک ہو گئی۔" ختم شد
" لقاء الباب المفتوح "
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1695 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
ماکول اللحم جانور کی کھال سے بنی ہوئی چیزوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ درندوں کی کھال سے بنی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
جبکہ غیر ماکول اللحم جانور سے بنی ہوئی اشیا کے بارے میں بہتر یہ ہے کہ انہیں استعمال نہ کیا جائے؛ کیونکہ ان کے پاک ہونے کے متعلق اختلاف کافی مضبوط ہے۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اونٹ، گائے اور بکری جیسے ماکول اللحم جانور اگر مردہ ہو جائیں تو ان کی کھال رنگنے سے کے بعد قابل استعمال ہو سکتی ہے اسے کہیں بھی استعمال کر سکتے ہیں، اس مسئلے میں کوئی شک نہیں ہے اور یہی اہل علم کا صحیح ترین قول ہے۔
جبکہ خنزیر اور کتے جیسے جانور جن کو ذبح کر کے بھی حلال نہیں کیا جا سکتا تو ان کے چمڑے کو رنگنے کے بعد طہارت میں اختلاف ہے، محتاط عمل یہی ہے کہ انہیں استعمال میں نہ لایا جائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث پر عمل کیا جائے کہ: (جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنی دینداری اور عزت دونوں محفوظ کر لیں) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم پر بھی عمل ہو گا کہ: (مشکوک چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک اور یقینی چیز کو اپناؤ۔) " ختم شد
مجموع فتاوی ابن باز: (6/354)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات