سوال: میرا اور میرے خاوند کا مشترکہ بینک اکاؤنٹ ہے، میں اور میرا خاوند اسی اکاؤنٹ میں اپنی تنخواہیں وصول کرتے ہیں، الحمد للہ، ہمارے اکاؤنٹ میں رقم نصاب سے زیادہ ہی رہتی ہے، اس میں سے کچھ نہ کچھ اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کیلئے خرچ کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے رقم کم زیادہ ہوتی رہتی ہے، لیکن نصاب سے کبھی کم نہیں ہوئی، میں نے آپ کے زکاۃ سے متعلق متعدد فتاوی پڑھے ہیں لیکن پھر بھی مجھے تشفی نہیں ہوئی، کیونکہ ہر ماہ کی تنخواہ کیلئے الگ سے سال کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کب ان پر سال مکمل ہوگا، اور آپ نے ایک سوال کے جواب میں ذکر کیا تھا کہ جس ماہ میں آپ زکاۃ ادا کرنا چاہتے ہیں اس ماہ میں موجود بینک اکاؤنٹ کی رقم دیکھ کر زکاۃ ادا کر دیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر اتفاق سے اسی ماہ میں اکاؤنٹ میں موجود رقم دیگر مہینوں سے نچلی سطح پر تھی تو کیا ہم واجب مقدار سے کم زکاۃ ادا تو نہیں کر رہے؟!، پہلے ہم نے یہی کیا تھا کہ پورے سال میں کم سے کم رقم جو ہمارے اکاؤنٹ میں ہے اسی کو بنیاد بنا کر زکاۃ کا حساب کر لیا تھا، یعنی کہ پورے سال ہمارے پاس وہ رقم ہر وقت موجود تھی، تو کیا ہم زکاۃ کی ادائیگی کیلئے یہ طریقہ اپنا سکتے ہیں؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
اپنے اور خاوند کے پیسے ایک ہی بینک اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں، زکاۃ کیسے اد اکی جائے؟
سوال: 222462
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس وقت تک زکاۃ واجب نہیں ہوتی جب تک مال کی مقدار نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک مکمل سال بھی گزر جائے۔
چنانچہ جیسے ہی نصاب کی مقدار مکمل ہوئی تو اس کا سال شروع ہو جاتا ہے، لہذا اگر نصاب مکمل ہونے کے ایک سال بعد مالک کی ملکیت میں رہتا ہے تو اس پر زکاۃ واجب ہو جائے گی، اور اگر دوران سال مال کی مقدار نصاب سے کم ہو جائے زکاۃ کا سال شمار نہیں ہوگا، اور دوبارہ سے اس وقت سال شروع ہوگا جب نصاب کی مقدار پوری ہو جائے۔
دوم:
تنخواہیں ، سلسلہ وار حاصل ہونے والی آمدن ، اور وقفے وقفے سے ملنے والی رقم کا الگ الگ حساب لگانا بہت ہی مشکل کام ہے، اس لیے مناسب حل یہی ہے کہ ایسا شخص اپنے لیے ایک سال مقرر کر لے اور اس سال میں جتنی بھی آمدن ہو سب کی زکاۃ ایک سال بعد ادا کرتا رہے، اس طرح سے جس مال کو ایک سال گزر چکا ہے اس کی زکاۃ وقت پر ادا ہو جائے گی، اور جس پر ابھی سال مکمل نہیں ہوا تو اسکی زکاۃ پیشگی ادا ہو جائے گی ، اور ضرورت کے پیش نظر ایسا کرنا جائز ہے۔
سوم:
سوال میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آخری مہینے میں اکاؤنٹ کی رقم دیگر مہینوں کے مقابلے میں کم تھی ، اور آخری ماہ میں موجود رقم کے اعتبار سے ہم نے زکاۃ ادا کی، تو آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، اس سے زیادہ آپ کے ذمہ فرض نہیں ہے، کیونکہ آپ نے واجب شدہ زکاۃ ادا کر دی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ رقم پر ہی سال گزرا ہے، اور اس سے زائد رقم کا سال اسی وقت ختم ہو گیا تھا جب اسے خرچ کیا گیا، اس لیے اس رقم کا زکاۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چہارم:
اگر آپ پورے سال میں متوسط رقم کا اندازہ لگاتے ہیں ، یا پورے سال میں کم ترین رقم کو معیار بنا کر اس کی زکاۃ ہر سال ادا کرتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے، بشرطیکہ سال بھر کی متوسط رقم آخری ماہ کی رقم کے برابر ہو ، تو یہ سابقہ صورت ہی بنتی ہے، کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
اور اگر سال مکمل ہونے سے قبل سابقہ کسی ماہ میں جتنی رقم آپ کے اکاؤنٹ میں تھی وہی رقم سارا سال موجود رہی ہے تب بھی یہ جائز ہے، کہ آپ اسی کو کم ترین رقم قرار دیکر اس کی زکاۃ ادا کر دیں، کیونکہ یہی وہ رقم ہے جس پر ایک سال مکمل حقیقی طور پر گزرا ہے۔
لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے : اگر سال کے آخری ماہ سے قبل کسی ماہ کو معیار بنا لیں اور سال مکمل ہونے سے پہلے آنے والے مہینوں میں بینک بیلنس کم ترین رقم سے بلند ہو گیا ، تو اس زائد رقم پر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جائے گا اور آپ نے اس کی زکاۃ ادا نہ کی ہوگی، چنانچہ اگر آئندہ سال اس مال کی زکاۃ ادا کرتے ہیں تو اس وقت تک زائد مبلغ پر 12 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہوگا، اور یہ درست نہیں ہے؛ اس لئے اگر آپ کم ترین بیلنس کو بنیاد بنا کر زکاۃ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کم ترین سطح سے زائد مبلغ کا خیال کریں اور جب اس کا سال مکمل ہو تو پھر اس کی زکاۃ بھی ادا کریں، اور کم ترین بیلنس کے سال کا انتظار مت کریں۔
چنانچہ آپ کیلئے محتاط اور آسان طریقہ کار یہی ہے کہ سال کے آخر میں اکاونٹ میں موجود رقم پہلے بیان شدہ طریقے کے مطابق دیکھیں اور اس کی زکاۃ ادا کر دیں، آپ کے ذمہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اگر یہ رقم سابقہ مہینے سے زائد ہے تو آپ اس کی زکاۃ پیشگی ادا کر رہے ہیں، جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (160574) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات