ميں نے ايك حديث پڑھى ہے جس ميں كہا گيا ہے:
" جس نے نردشير كھيلى گويا كہ اس نے خنزير كے گوشت اور خون ميں اپنا ہاتھ رنگا "
اور ميں نے يہ بھى پڑھا ہے جس كا معنى يہ ہے:
" مہروں ( نرد ) كے ساتھ كھيلنا حرام ہے "
اس سلسلہ ميں مجھے بہت سے اہم سوالات درپيش ہيں:
كيا ہر قسم كى كھيل چاہے وہ مفيد بھى ہو حرام ہيں، خاص كر كچھ اسلامى كھيل ايسے ہيں جو نرد پر اعتماد كرتے ہيں كيا يہ سب حرام ہيں، يا كہ حرمت بعض مخصوص كھيلوں كے ساتھ مقيد ہے ؟
برائے مہربانى اس معاملہ كى تفصيل بيان كريں.
حرام اور حلال كھيل
سوال: 22305
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كھيل دو قسم كے ہيں:
پہلى قسم:
وہ كھيل جو جہاد فى سبيل اللہ ميں ممد و معاون ہوں، چاہے وہ جہاد ہاتھ ( قتال ) كے ساتھ ہو يا زبان ( علم ) كے ساتھ مثلا تيراكى، تير اندازى اور نشانہ بازى، اور گھڑ سوارى، اور شرعى علمى قدرات اور معارف كو زيادہ كرنے پر مشتمل كھيل، اور جسے شرعى كے ساتھ ملحق كيا جاتا ہے، تو يہ كھيل مستحب ہيں كھلاڑى كو نيت اچھى ركھنے پر اجروثواب ديا جاتا ہے؛ كيونكہ اس كى نيت اچھى تھى اور اس سے دين كى نصرت كا ارادہ تھا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے بنو عدنان تم نشانہ بازى اور تيراندازى كرو، كيونكہ تمہارے والد نشانہ باز اور تير انداز تھے "
تو تيرى اندازى كے معانى پر جو بھى شامل ہو گا اسے اسى پر قياس كيا جائيگا.
دوسرى قسم:
وہ كھيل جو جہاد فى سبيل اللہ ميں ممد و معاون نہيں، اس كى دو قسمں ہيں:
اول:
وہ كھيل جس كى ممانعت ميں نص وارد ہے، مثلا نردشير جو كہ سوال ميں بھى ذكر كيا گيا ہے، اس سے مسلمان شخص كو اجتناب كرنا ضرورى ہے.
دوم:
وہ كھيل جس كے متعلق نص وارد نہيں جس ميں كوئى امر يا نہى وارد ہو، اس كى دو قسميں ہيں:
اول:
وہ كھيل جو حرام پر مشتمل ہيں، مثلا مجسموں يا ذى روح كى تصاوير پر مشتمل كھيل، يا پھر جن ميں موسيقى پائى جاتى ہو، يا جو لوگوں كے ہاں معروف ہوں كہ يہ كھيل لڑائى اور جھگڑے كا باعث بنتے ہوں، اور فحش قبيح اعمال اور اقوال كا باعث ہوں، تو يہ كھيل ممنوعہ كھيلوں ميں شامل ہوتے ہيں؛ كيونكہ اس ميں حرام پايا جاتا ہے، يا پھر يہ حرام كا ذريعہ ہيں، اور جو چيز بھى غالبا حرام كا ذريعہ ہو اسے ترك كرنا لازم ہے.
دوم:
وہ كھيل جو حرام پر مشتمل نہيں، اور نہ ہى غالبا حرام كا باعث بنتے ہيں، اس طرح كے كھيل ہم بہت ديكھتے ہيں مثلا فٹ بال، باسكٹ بال، ٹيبل ٹينس وغيرہ تو يہ كھيل درج ذيل اصول و ضوابط اور قيود كے ساتھ جائز ہيں:
پہلى شرط:
اس ميں قمار بازى اور جوا نہ پايا جاتا ہو، جو كھلاڑيوں كے درميان ہوتى ہے.
دوسرى شرط:
وہ واجب اور فرض كردہ اللہ كے ذكر اور نماز ميں ركاوٹ نہ ہوں، يا پھر واجب اطاعت مثلا والدين كے ساتھ حسن سلوك ميں ركاوٹ نہ ہو.
تيسرى شرط:
وہ كھلاڑى كا زيادہ وقت نہ لے، چہ جائيكہ وہ سارا وقت ہى اس ميں لگا رہے، يا پھر وہ لوگوں ميں اسى كھيل سے معروف ہو، يا اس كا كام اور ملازمت ہى يہ ہو؛ كيونكہ خدشہ ہے كہ اس كھلاڑى پر اللہ تعالى كا درج ذيل فرمان صادق ہو:
وہ لوگ جنہوں نے اپنے دين كو لہو و لعب اور كھيل تماشا بنا ليا، اور انہيں دنيا كى زندگى نے دھوكہ ميں ڈال ديا تو آج ہم انہيں بھلا دينگے .
اور آخرى شرط كى كوئى محدود مقدار نہيں، بلكہ وہ مسلمانوں كے عرف اور عادت پر چھوڑى جائيگى، اس ليے جسے وہ زيادہ سمجھتے ہوں تو يہ ممنوع ہے، اور انسان كے ليے اس كھيل كے وقت كى حد مقرر كرنا ممكن ہے، تو اگر تو نصف يا ايك تہائى يا ايك چھوتھائى ہو تو يہ بہت زيادہ ہے.
ماخذ:
فضيلۃ الشيخ خالد الماجد پروفيسر كليۃ الشريعۃ امام محمد بن سعود اسلامى يونيورسٹى