برائے مہربانى ہميں يہ بتائيں كہ اگر ہفتہ وار دينى درس دينے كا وقت مقرر كيا جائے حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا نہيں كرتے تھے، يا پھر كوئى علمى حلقہ لگايا جائے تو كيا يہ ممنوعہ بدعت شمار ہو گى، كيونكہ طلب علم عبادت ہے اور اس كے ليے يہ وقت محدد كيا جا رہا ہے، اسى كے تحت يہ بھى كہ آيا جب كچھ لوگ ہر ماہ كسى رات جمع ہو كر قيام الليل كرنے پر متفق ہوں تو كيا يہ بدعت شمار ہو گا دليل كے ساتھ واضح كريں ؟
قيام الليل اور درس كے وقت كى تحديد ميں فرق
سوال: 22322
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مندرجہ بالا سوال شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
….. ليكچر يا حلقہ اور درس دينے كے ليے كسى دن كى تعيين كر لينا بدعت نہيں ہے جس سے روكا گيا ہو، بلكہ يہ مباح ہے بالكل اسى طرح جس طرح سكول اور مدرسہ ميں فقہ يا تفسير يا نحو وغيرہ كا پيريڈ مقرر كيا جاتا ہے.
بلاشك و شبہ شرعى علم حاصل كرنا عبادات ميں شامل ہوتا ہے، ليكن مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے اس كے ليے كوئى وقت اور دن مقرر كرنا صحيح ہے، اور يہ مصلحت كے تابع ہے، اور مصلحت اسى ميں ہے كہ اس ميں دن كى تعيين كر لى جائے تا كہ لوگ اضطراب كا شكار نہ ہوں.
اور پھر طلب علم وقتى عبادت نہيں بلكہ يہ مصلحت اور وقت اور فراغت كے تابع ہے، ليكن اگر طلب علم كے ليے كوئى دن اس اعتبار سے مقرر كر ليا جائے يہ اكيلا يہى دن طلب علم كے ليے مخصوص ہے اس كے علاوہ اور نہيں تو يہ بدعت ہو گى.
رہا يہ مسئلہ كہ كچھ لوگوں كا كسى معين رات ميں اكھٹے ہو كر قيام الليل كرنے پر متفق ہونا بدعت ہے؛ كيونكہ قيام الليل كى جماعت مشروع نہيں، الا يہ كہ بعض اوقات اور بغير كسى قصد كے ہو، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ ہوا تھا.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن صالح العثيمين كتاب العلم صفحہ ( 208 )