ايك شخص كام سے تھكا ہوا آئے اور دوپہر كا كھانا كھا كر عصر كى اذان كے بعد گھر ميں ہى اكيلا نماز ادا كر كے سوجائے اور مسجد ميں نماز باجماعت كے ليے نہ جائے تو اس كى نماز كا حكم كيا ہو گا ؟
كام كى تھكاوٹ كى بنا پر نماز باجماعت ادا نہيں كرنا چاہتا
سوال: 22326
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے يہ سوال دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" آپ كا ذكر كردہ عذر ايسا نہيں جس كى بنا پر آپ كے ليے نماز باجماعت كى تاخير كا جواز بنے، بلكہ آپ پر واجب ہے كہ آپ مسلمان بھائيوں كے ساتھ مل كر اللہ تعالى كے گھر مساجد ميں نماز باجماعت ادا كريں، اور اس كے بعد كھانا كھا كر آرام كر ليں.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے آپ پر وقت مقررہ ميں مسلمانوں كے ساتھ مل كر نماز باجماعت ادا كرنا فرض كيا ہے، اور آپ كا بيان كردہ عذر نماز باجماعت سے پيچھے رہنے ميں شرعى عذر نہيں بنتا، ليكن شيطان اور نفس امارہ كى جانب سے دھوكہ، اور ايمان كى كمزورى اور اللہ تعالى سے خوف كى كمى ہے.
اس ليے آپ اپنى خواہشات اور شيطان اور نفس امارہ سے بچ كر رہيں گے تو انجام بھى اچھا ہو گا، اور دنيا و آخرت ميں آپ كو نجات اور سعادت حاصل ہو گى.
اللہ تعالى آپ كو آپ كے نفس كے شر اور شيطانى وسوسوں اور كچوكوں سے محفوظ ركھے.
ماخذ:
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 12 / 29 )