کیا نۓ علمی نظریات سے قرآن مجید کی تفسیر کرنی جائز ہے ؟
قرآن مجید کی نۓ نظریات کے ساتھ تفسیر کا حکم
سوال: 22351
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مندرجہ بالا سوال فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیتے ہوۓ فرمایا :
علمی نظریات کےساتھ قرآن کی تفسیر کرنےمیں خطرہ پایا جاتا ہے ، وہ اس طرح کہ جب ہم ان نظریات سے تفسیر کردیں تو پھر ان کے خلاف دوسرے نظریات آگۓ تو دشمنان اسلام کی نظروں میں یہ ہوگا کہ قرآن مجید صحیح نہیں رہا ، لیکن مسلمانوں کی نظر میں تویہ ہےکہ وہ کہتے ہیں جس نے اس کی تفسیر کی ہے اس سے خطا کا تصور کیا جاسکتا ہے ، لیکن دشمنان اسلام اس کے خلاف داؤ لگانے کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔
لھذا آپ اس سے بہت ہی زيادہ بچ کررہیں کہ ان علمی امور سے تفسیر کریں اور ہمیں یہ معاملہ واقع پرچھوڑ دینا چاہیے ، اوراگر یہ فی الواقع ثابت ہوجاۓ تو ہمیں اس کی کوئ ضرورت نہيں رہے گی کہ ہم یہ کہیں کہ اسے قرآن مجید نے ثابت کیا ہے ۔
قرآن مجید توعبادت اور غوروفکر اورعقل اور تدبرکے لیے نازل ہوا ہے ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
یہ بابرکت کتاب ہے جسےہم نے آّپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس اس کی آیات پرغوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں سورۃ ص ( 29 ) ۔
اوریہ ان امورکی طرح نہیں جو تجربات سےحاصل ہوں اور لوگ اسے معلومات کے ذریعے حاصل کرلیتے ہیں ، پھر ہوسکتا ہے کہ اس پرقرآن کریم کولاگوکرنے میں عظیم خطرہ پیدا ہوجاۓ ، اس کی مثال یہ دے سکتے ہیں کہ مثلا اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
اے انسانوں اور جنوں کی جماعت ! اگرتم میں آسمانوں اورزمین کے کناروں سے باہر نکلنے کی طاقت ہے تونکل بھاگو ! غلبہ اور طاقت کے بغیر تم بھاگ نہیں سکتے الرحمن ( 33 ) ۔
جب انسان چاند پرجاپہنچا تو بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر کرتےہوۓ اسے اس واقعہ پرفٹ کردیا اور کہا کہ : اس آيت میں سلطان سے مراد علم ہے ، اوروہ اپنے علم کی بنا پرزمین کے کناروں سے باہرجانکلے اورجاذبیت سے تجاوزکرلیا ہے ، تو یہ بہت بڑی غلطی ہے اور تویہ جائزہی نہیں کہ اس معنی میں قرآن مجید کی تفسیر کی جاۓ ۔
تویہ اس کا متقاضي ہے کہ آپ نے یہ شہادت دی کہ اللہ تعالی نے یہ چاہا اور یہ شہادت بہت ہی بڑي شہادت ہے جس کے بارہ میں تجھے سوال ہوگا ۔
اورجوبھی اس آيت پرغوروفکر تدبرکرے گا وہ اس نتیجے پرپہنچےگا کہ یہ تفسیر باطل ہے اور صحیح نہيں اس لیے کہ یہ آیت اللہ تعالی کے اس فرمان زمین پرجوہیں سب فنا ہونے والے ہیں ، صرف تیرے رب کی ذات جوعظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جاۓ گی ، پھرتم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤگے ؟ الرحمن ( 26 – 28 ) ۔
تو ہم ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ لوگ آسمان کے کناروں سے باہرنکل گۓ ہیں ؟ ۔
تو جواب نہیں میں ہوگا اوراللہ تعالی تو فرمارہے ہيں :
{ اے انسانوں اور جنوں کی جماعت ! اگرتم میں آسمانوں اورزمین کے کناروں سے باہر نکلنے کی طاقت ہے ۔
دوم :
اورکیا ان پرآگ کے شعلے اوردھواں بھیجا گيا ہے ؟
تواس کا جواب بھی نہیں میں ہے ، تو یہ صحیح نہیں کہ اس آيت کی تفسیر یہ کی جاۓ جیسا کہ ان لوگوں نے کی ہے ۔
ہم یہ کہیں گے کہ چاند تک پہنچنا ایک تجرباتی چيزہے جس تک وہ اپنے تجربوں کی بنا پرپہنچے ہیں ، اوریہ کہ ہم قرآن مجید کوپھیر کراوراس میں تحریف کریں تاکہ وہ اس پردلالت کرے تو یہ قطعی طورپرصحیح نہیں اورنہ ہی جائزہے کہ اس طرح کی تفسیر کی جاۓ ۔ .
ماخذ:
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی کے فتاوی سے لیاگيا دیکھیں کتاب العلم ص ( 150 - 152 ) ۔