0 / 0
11,40414/07/2008

كاٹ كر ابرو ہلكے اور باريك كرنا

سوال: 22393

ميں نے بہت سے كالم اور پمفلٹ پڑھے ہيں جن ميں ابرو مونڈنے اور جسم كے دوسرے حصوں كے بال مونڈنے كے بارہ ميں بحث كى گئى ہے، ليكن ميں اس كى وضاحت چاہتى ہوں كہ آيا بالكل مكمل طور پر مونڈنے كى نہى ہے يا كہ نہيں ؟
ميرے ابرو كے بال بہت زيادہ گھنے ہيں جنہيں كاٹ كر ہلكے كرنے كى ضرورت ہے، تو كيا ميرے ليے بال كاٹ كر ابرو باريك اور ہلكے كرنے جائز ہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہم يہاں ابرو اور باقى جسم كے بال كاٹنے كے متعلق اہل علم كے فتاوى جات نقل كرتے ہيں:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابرو كے بال اگر تو اكھيڑ كر اتارے جائيں تو يہ النمص ميں شامل ہوتا ہے، جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال اكھيڑنے اور اور يہ عمل كروانے والى دونوں پر لعنت فرمائى ہے، اور يہ كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، اور عورت كے ساتھ اس ليے مخصوص ہے كہ غالبا اور عادتا يہ كام عورت ہى كرتى ہے، وگرنہ اگر مرد بھى يہ كام كرے تو وہ بھى عورت كى طرح ہى ملعون ہو گا، اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے.

اور اگر اكھيڑے بغير يعنى كاٹ كر يا مونڈ كر ابرو بنائے جائيں تو بعض اہل علم اسے اكھيڑنے جيسا ہى سمجھتے ہيں، كيونكہ يہ اللہ تعالى كى بنائى ہوئى صورت ميں تبديلى ہے، اس ليے اس ميں كوئى فرق نہيں كہ بال اكھيڑ كر يا كاٹ كر يا مونڈ كر ابرو بنائے جائيں، بلاشك اسى ميں زيادہ احتياط بھى ہے، اس ليے ہر كسى كو چاہيے كہ وہ اس سے اجتناب كرے، چاہے مرد ہو يا عورت.

ماخوذ از: فتاوى علماء بلد الحرام صفحہ نمبر ( 577 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال نقل كيا گيا ہے:

ايك نوجوان لڑكى كے ابرو كے بال بہت زيادہ گھنے ہيں، تقريبا كريہ المنظر نظر آتى ہے، تو كيا يہ لڑكى كچھ بال مونڈ لے تا كہ دونوں ابرؤوں كے مابين فاصلہ ہو اور باقى كو ہلكا كر لے تا كہ اپنے خاوند كے ليے ديكھنے ميں اچھى اور بہتر نظر آئے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" ابرو كے بال نہ تو مونڈنے جائز ہيں، اور نہ ہى ہلكے كرنے؛ كيونكہ يہ اس نمص يعنى بال اكھيڑنے ميں شامل ہوتا ہے جس فعل كے كرنے اور كروانے والى عورت پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت كى ہے، لہذا جو كچھ ہو چكا ہے اس كے ليے آپ كو توبہ و استغفار كرنا ضرورى ہے، اور آئندہ مستقل ميں آپ اس سے اجتناب كريں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 196 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے كہ:

النمص ابرو كے بال اكھيڑنے كو كہتے ہيں، اور يہ جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال اكھيڑنے اور اور اكھڑوانے والى دونوں عورتوں پر لعنت فرمائى ہے.

عورت كے ليے بعض اوقات جو داڑھى يا مونچھوں كے بال آ جاتے ہيں وہ اتارنے جائز ہے، يا پھر پنڈليوں يا ہاتھوں كے بال.

اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابرو كے بال ا كھيڑنے اور بال اكھيڑنے كا مطالبہ كرنے والى عورت پر لعنت فرمائى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4886 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2125 ).

حاصل يہ ہوا كہ: ابرو كے بال اتارنے حرام ہيں، چاہے كاٹ كر اتارے جائيں، يا پھر مونڈ كر يا اكھيڑ كر، اور اس كے علاوہ بال اتارنے مباح ہيں، مثلا ہاتھوں، اور پنڈليوں كے بال، اور اسى طرح جو دونوں ابرؤوں كے درميان ہوں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 195 ).

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى آيا ہے كہ:

سوال:

دونوں ابرؤوں كے درميان موجود بال كاٹنے كا اسلام ميں كيا حكم ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" انہيں اكھيڑنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ يہ ابرو ميں شامل نہيں ہيں"

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android