سوال: کیا خلفائے راشدین سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے نماز کی تکبیرات کیساتھ رفع الیدین نہ کیا ہو؟
کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نماز کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین نہیں کیا
سوال: 224635
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز کی تکبیرات کیساتھ چار مقامات پر رفع الیدین کیا کرتے تھے، اور وہ مقام یہ ہیں: تکبیرِ تحریمہ کیساتھ، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھانے کے بعد، اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونے کے بعد، اس بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث نمبر: (739) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہہ کر رفع الیدین کرتے، جس وقت رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جب “سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ “کہتے تو اس وقت بھی رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں [کے بعدتشہد ]سے اٹھتے تو تب بھی رفع الیدین کرتے تھے”
امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“علی بن مدینی رحمہ اللہ -جو اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم دین تھے- کہتے ہیں: اس حدیث کی وجہ سے مسلمانوں پر حق بنتا ہے کہ وہ رفع الیدین کیا کریں” انتہی
بلکہ رفع الیدین کرنے کی احادیث کو صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے نقل کیا ہے، جن کی تعداد 30 صحابہ کرام تک چا پہنچتی ہے، ان صحابہ کرام میں : ابو حمید رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سمیت دس صحابہ کرام کی موجودگی میں رفع الیدین کیساتھ نماز پڑھی تو سب نے کہا: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز پڑھی ہے” اسی طرح رفع الیدین کی احادیث کو عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن عمر، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ ، ابو اسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابو موسی، اور جابر بن عمیر لیثی ۔۔۔۔سمیت متعدد صحابہ کرام ہیں۔
چنانچہ صحابہ کرام کی اتنی بڑی جماعت کے روایت کرنے کی وجہ سے رفع الیدین کی احادیث متواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہے، پھر صحابہ کرام نے اس پر عمل بھی کیا، اور رفع الیدین نہ کرنے والوں کی تردید بھی کی۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو رفع الیدین نہ کرتے ہوئے دیکھتے تو اسے حصباء کنکریاں مارتے -حصباء ان چھوٹی چھوٹی کنکریوں کو کہا جاتا ہے جو مسجد کے صحن میں بچھائی جاتی تھیں- اور اسے یہ بھی حکم دیتے کہ نماز میں رفع الیدین کرو، ان کے اس واقعہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “جزء رفع الیدین ” میں بیان کیا ہے، اور اس کی سند کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس کی سند صحیح ہے” المجموع (3/375)
اور احناف کہتے ہیں کہ رفع الیدین صرف تکبیرِ تحریمہ میں کہنا ہی درست ہے، اور مذکورہ صحیح احادیث کے مقابلے میں دو احادیث لے کر آتے ہیں، ان میں سے ایک براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ہے، اور دوسری عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، لیکن یہ دونوں احادیث ہی ضعیف ہیں، ان سے دلیل اخذ کرنا ہی درست نہیں ہے۔
چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سفیان بن عیینہ، امام شافعی، امام احمد، یحیی بن معین، اور بخاری سمیت دیگر محدثین نے ضعیف نے کہا ہے۔
جبکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو عبد اللہ بن مبارک، امام احمد، بخاری، دارقطنی، اور بیہقی سمیت بہت سے محدثین نے ضعیف کہا ہے۔
دوم:
اس بارے میں خلفائے راشدین سے منقول موقف کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ عمر بن خطاب، اور علی رضی اللہ عنہما دونوں ان صحابہ کرام میں شامل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کی احادیث بیان کرتے ہیں، اس لئے یقیناً دونوں ہی رفع الیدین بھی کرتے تھے، ان کے بارے میں کوئی اور گمان رکھنا ویسے ہی مناسب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے انہیں ایسے صحابہ کرام میں شمار کیا ہے جو نماز میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے، جس میں رفع الیدین کرنے کے متعلق واضح ترین اشارہ موجود ہے، چنانچہ ابن المنذر نے ” الأوسط ” (3/304) میں امام عبد الرزاق صنعانی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: “اہل مکہ نے نماز کی ابتدا میں ، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا طریقہ ابن جریج سے لیا ہے، ابن جریج نے عطاء سے لیا ہے، اور عطاء نے ابن زبیر سے لیا،اور ابن زبیر نے ابو بکر صدیق سے لیا، اور ابو بکر صدیق نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا”
بیہقی نے (2535) میں کچھ صحابہ کرام سے رفع الیدین کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:
“اور اسی طرح ہمیں رفع الیدین کے بارے میں ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، جابر بن عبد اللہ، عقبہ بن عامر، اور عبد اللہ بن جابر بیاضی رضی اللہ عنہم سے روایات ملتی ہیں، جبکہ کچھ لوگوں نے ابو بکر ، عمر، اور علی رضی اللہ عنہم سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے، تو یہ بات اِن صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت نہیں ہے” یعنی : ابن مسعود اور علی رضی اللہ عنہما سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی جگہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہے۔
بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نماز میں رفع الیدین نہیں کیا”
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے، رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا ہے”
حسن بصری رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حسن بصری رحمہ اللہ نے کسی ایک صحابی کو بھی رفع الیدین کرنے کے عمل سے مستثنی نہیں کیا”
بلکہ کچھ ائمہ کرام نے خلفائے راشدین سے رفع الیدین کے ثبوت کو بڑے وثوق سے ذکر کیا ہے، حتی کہ بیہقی نے اس مسئلے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سب سے آخر میں جو روایت کی ہے وہ امام ابو بکر بن اسحاق فقیہ کی ہے وہ کہتے ہیں:
“رفع الیدین کا ثبوت [ان جگہوں میں] نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، پھر خلفائے راشدین سے بھی ثابت ہے، اور پھر دیگر صحابہ کرام سمیت تابعین سے بھی ثابت ہے” انتہی
مزید کیلئے دیکھیں: ” الأوسط ” از: ابن المنذر (3/299-308) ، ” المجموع ” از: نووی (3/367-376) اور ” المغنی “از: ابن قدامہ (2/171-174)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب