وراثت کے اہم ترین احکامات کون سے ہیں؟
وراثت سے متعلقہ چند مسائل اور جامع قواعد
سوال: 225165
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
علمِ وراثت کا تعلق بہت عظیم اور اعلی شرعی علوم سے ہے، اللہ تعالی نے سورت النساء کی تین آیات میں بہت سے وراثت کے احکامات بیان فرمائے ہیں، اور پھر احادیث مبارکہ میں ان احکامات کی مزید تفصیلات اور وضاحت بیان کی گئی ہے۔
صحابہ کرام نے بھی علم الفرائض یعنی وراثت کا بھر پور اہتمام کیا ، پھر ان کے بعد تابعین اور علمائے کرام نے اس علم کو مکمل توجہ دی، اور اس کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئیں۔
ذیل میں ہم علم وراثت سے متعلقہ کچھ مسائل اور جامع قواعد ذکر کریں گے:
وراثت کے تین ارکان ہیں: وارث، مورث [یعنی میت] اور ترکہ۔
وراثت کی تین شرائط ہیں:
پہلی شرط: وارث میت کی وفات کے وقت زندہ ہو، یا اس کا حکم زندہ افراد والا ہو جیسے کہ حمل کے بارے میں کیا جاتا ہے؛ حمل کے وارث بننے کے لیے دو شرطیں ہیں: [1] حمل میت کی وفات کے وقت رحم میں ہو چاہے نطفہ کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو [2] حمل مکمل طور پر زندہ حالت میں پیدا ہو۔
دوسری شرط: میت کی وفات یقینی ہو، یا اسے فوت شدگان کے حکم میں شامل کر دیا جائے، جیسے کہ گمشدہ افراد وغیرہ۔
تیسری شرط: وراثت کے اسباب کا علم ہو، وارث کے درجے کا علم ہو۔
وراثت کے اسباب تین ہیں:
نکاح: اس سے مراد محض صحیح عقد نکاح ہے، دخول شرط نہیں ہے۔
ولاء: یعنی غلام کو آزاد کرنے پر مالک کو حاصل ہونے والا حق۔
نسب: رشتہ داری
وراثت کے تین موانع ہیں:
غلامی: لہذا غلام کسی کا وارث نہیں بنے گا۔
قتل: لہذا قاتل مقتول کا وارث نہیں بنے گا۔
اختلاف دین: لہذا کافر کسی مسلمان کا اور مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں بنے گا۔
مرد وارثوں کی تعداد 15 ہے:
بیٹا، پوتا (پھر اس کی نسلیں) والد، دادا (اوپر تک نسب) سگا بھائی، والد کی طرف سے بھائی، ماں کی طرف سے بھائی، سگا بھتیجا ، والد کی طرف سے بھائی کا بیٹا (پھر اس کی نسلیں) سگا چچا، والد کا چچا(نسب میں کتنا ہی بلند ہو) سگے چچا کا بیٹا، والد کے چچا کا بیٹا، خاوند، اور آزاد کرنے والا آقا۔
خواتین وارثوں کی تعداد 10 ہے:
بیٹی، پوتی چاہے اس کا والد نسب میں کتنا ہی نیچے ہو، ماں، نانی، دادی، سگی بہن، والد کی طرف سے بہن، ماں کی طرف سے بہن، بیوی اور آزاد کرنے والی عورت۔
وراثت دو قسم کی ہے:
[1] فرض حصہ، یہ شرعی طور پر وارث کے لیے مقرر کیا گیا حصہ ہوتا ہے، جیسے کہ نصف، ایک چوتھائی، ایک تہائی ۔۔۔ وغیرہ
[2] عصبہ ، فرض حصہ لینے والے وارثین اپنا حصہ لے لیں تو بقیہ ان وارثوں کو ملتا ہے۔
قرآن کریم میں فرض حصے 6 ہیں: نصف، چوتھا، آٹھواں، دو تہائی، تہائی اور چھٹا۔
پہلے اصحاب الفروض اپنا حصہ لیں گے، پھر اگر ترکہ میں سے کچھ بچ جائے تو عصبہ لے لیں گے، اور اگر کچھ نہ بچے تو انہیں کچھ نہیں ملے گا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اصحاب الفرائض کو ان کا حصہ دو، اور پھر جو بچ جائے وہ میت کے قریب ترین مرد عصبہ کو ملے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6732) اور مسلم : (1615)نے روایت کیا ہے۔
جبکہ وراثت کے تفصیلی احکامات ، اور ہر وارث کی حالتیں اور ہر حالت میں اس کے وارث بننے کی شرائط وغیرہ اس مختصر جواب میں بیان کرنا ممکن نہیں ہیں، تاہم اس حوالے سے وراثت سے متعلقہ کتب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے، عربی زبان میں "الفوائد الجلية في المباحث الفرضية" از شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ ، "تسهيل الفرائض " از شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ، اور "التحقيقات المرضية في المباحث الفرضية" از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب