میرے ہاں ماہ شعبان میں بچے کی پیدائش ہوئی، اس کے بعد میں بیمار ہو گئی تو نفاس کا خون تین دن ہی آیا، اس کے بعد خون بند ہو گیا، میں نے غسل کیا اور نمازیں پڑھنے لگی، اس کے بعد بالکل بھی خون نہیں آیا شعبان پورا گزر گیا اور رمضان شروع ہو گیا، پھر رمضان کا ایک ہفتہ گزرنے کے بعد مجھے لیڈی ڈاکٹر نے اینٹی بائیوٹک لکھ کر دی، میں روزے رکھتی رہی، خون سارا دن نہیں آتا تھا، بس مغرب سے کچھ پہلے دھبے سے لگ جاتے تھے، رمضان کا پورا مہینہ ایسے ہی گزر گیا، اب مجھے طہر کا پتہ ہی نہیں کہ یہ طہر کے ایام یا نفاس کے ایام؟ بہ ہر حال میں نے پورے مہینے کے روزے رکھے ہیں، تو کیا مجھے ان روزوں کو دوبارہ رکھنا پڑے گا یا نہیں؟
نفاس کا خون تو ختم ہو گیا، لیکن پھر بھی خون کے دھبے نظر آئے تو ایسی صورت میں روزوں کا کیا حکم ہے؟
سوال: 226060
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
کم از کم نفاس کی کوئی حد نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی عورت زچگی کے چند دن بعد ہی پاک صاف ہو جاتی ہے تو وہ غسل کر نماز روزے کا اہتمام کرے گی۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وضع حمل کے بعد جب بھی عورت پاک صاف ہو جائے چاہے ایک دو دن بعد ہی پاک ہو جائے تو اس پر نماز فرض ہو گی، [وہ روزے رکھے تو ]اس کے روزے صحیح ہوں گے، نیز اس کا خاوند اس سے تعلق بھی قائم کر سکتا ہے۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " از ابن عثیمین
حیض یا نفاس کی حالت میں طہر کی دو علامتیں ہیں ان سے طہر کی پہچان ہو سکتی ہے:
اول: سفید پانی آنے لگے۔
دوم: مخصوص جگہ بالکل خشک ہو جائے کہ سرخی، زردی یا مٹیالی رنگت بھی باقی نہ رہے۔
دوم:
نفاس سے مکمل طہر حاصل ہو جانے کے بعد خون کے قطرے یا دھبے لگنا نفاس میں شمار نہیں ہو گا، اس لیے عورت اس حالت میں نماز روزے کا مکمل اہتمام کرے گی۔
جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی کے دوسرے ایڈیشن (4/259) میں ہے کہ:
"ایک آدمی کی بیوی کے ہاں رمضان کی نو تاریخ کو زچگی ہوئی، اور پھر صرف نو دن کے بعد نفاس کا خون مکمل طور پر رک گیا، اور خاتون نے غسل کر کے نماز روزے کی پابندی شروع کر دی، لیکن وہ رات کو ملاحظہ کرتی ہے کہ خون کے چند قطرے سے آتے ہیں، دن میں کچھ بھی نہیں ہوتا، تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اس کی نمازیں اور روزے صحیح ہیں؟
جواب: اگر عورت بالکل پاک صاف ہو گئی ہے تو اس کی نماز اور روزے صحیح ہیں؛ کیونکہ اس عورت کا حکم پاک عورت والا ہے، اور جو رات کے وقت دھبے یا قطرے نظر آتے ہیں اسے نفاس نہیں سمجھا جائے گا، نہ ہی اس پر خون کا لفظ بولا جائے گا، اس لیے اس کا حکم نفاس والا نہیں ہے" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک عورت کو نفاس کے دو ماہ بعد اور طہارت کے بعد خون کے دھبے سے نظر آتے ہیں، تو کیا ان دھبوں کی وجہ سے روزے چھوڑ دے اور نماز نہ پڑھے؟ یا پھر کیا کرے؟
تو انہوں نے جواب میں کہا: اگر عورت حیض یا نفاس کے بعد اچھی طرح یقینی طور پر پاک صاف ہو جائے ۔ حیض میں پاک صاف ہونے سے میرا مطلب یہ ہے کہ: بالکل صاف رطوبت نکلے، عورتوں کو اس رطوبت کا علم ہوتا ہے۔ تو جب طہر کے بعد مٹیالا، زرد پانی، یا دھبا یا رطوبت نظر آئے تو یہ حیض نہیں ہوتا، اس لیے عورت نماز اور روزے کا اہتمام کرے گی، اور اس کا خاوند بھی اس سے تعلقات قائم کر سکتا ہے؛ کیونکہ یہ حیض ہے ہی نہیں۔ جیسے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "ہم زرد اور مٹیالے پانی کو کچھ بھی شمار نہیں کرتی تھیں" اس اثر کو بخاری نے روایت کیا ہے، جبکہ ابو داود کی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ: "طہر کے بعد [زرد اور مٹیالے پانی کو کچھ بھی شمار نہیں کرتی تھیں]"اس کی سند بھی صحیح ہے۔
اس بنا پر ہم کہیں گے کہ: یقینی طور پر طہر آ جانے کے بعد جو کچھ بھی نظر آیا اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، یہ دھبے اور خون کے قطرے نماز ، روزے اور جماع سے مانع نہیں ہیں، لیکن عورت پر لازمی ہے کہ جلد بازی مت کرے، اور مکمل طور پر طہر آنے کا انتظار کرے، یہی وجہ ہے کہ خواتین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس خون لگی ہوئی روئی بھیجتی تھیں ، تو سیدہ عائشہ انہیں کہتیں: تم جلد بازی مت کرو، یہاں تک کہ سفید پانی آنے لگے۔" ختم شد
www.ibnothaimeen.com/all/books/article_16919.shtml
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب