جب ميں نيند سے بيدار ہوؤں اور مجھے يقين نہ ہو كہ مجھ پر غسل واجب ہے يا نہيں تو مجھے كيا كرنا ہو گا ؟
يعنى مجھے يہ يقين نہيں كہ نيند ميں كسى بھى سبب سے منى خارج ہوئى ہے ( غير مرئى علامات وغيرہ ) برائے مہربانى اس سلسلے ميں مجھے كوئى نصيحت كريں.
اگر كوئى شخص بيدار ہو اور لباس پر نمى محسوس كرے ليكن اسے يہ علم نہ ہو كہ يہ كيا ہے
سوال: 22705
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر انسان نيند سے بيدار ہو اور نيند ميں اس نے احتلام ديكھا، ليكن لباس ميں كوئى نمى كے نشانات نہ ہوں تو علماء كرام كا اجماع ہے كہ اس پر غسل واجب نہيں، كيونكہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك عورت نے دريافت كرتے ہوئے كہا تھا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا، كيا اگر عورت كو احتلام ہو تواس پر غسل واجب ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں، جب وہ پانى ديكھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 282 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 313 ).
يہ اس بات كى دليل ہے كہ اگر پانى نہ ديكھے تو غسل واجب نہيں ہو گا.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 269 ).
ليكن اگر لباس ميں نمى موجود ہو اس كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
اسے يقين ہو كہ يہ منى ہے، اس حالت ميں بالاجماع غسل واجب ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 269 ).
دوسرى حالت:
يہ يقين ہو كہ وہ منى نہيں، تو اس صورت ميں غسل واجب نہيں ہوگا ليكن جہاں وہ نمى ہے اسے دھويا جائيگا، كيونكہ اس كا حكم پيشاب كا حكم ہو گا.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 280 ).
تيسرى حالت:
اس ميں تردد اور شك ہو كہ آيا يہ منى ہے يا نہيں ؟
اس صورت ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں كہتے ہيں كہ:
اسے مذى اور منى دونوں كا اكٹھا حكم ديا جائيگا، چنانچہ وہ جنابت ختم كرنے كے ليے غسل كرےگا، كيونكہ منى ہونے كا احتمال ہے، اور اپنے لباس كو نجاست سے پاك كرےگا كيونكہ يہ احتمال ہے كہ وہ مذى ہو، كيونكہ اس كے بغير وہ برى الذمہ نہيں ہو سكتا.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 146 ).
امام احمد كا مسلك جسے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اختيار كيا ہے كہ: اگر سونے سے قبل شہوت كى سوچ اور فكر يا پھر بيوى سے بوس و كنار ہوا ہو تو يہ نمى مذى شمار ہوگى، كيونكہ غالبا اس كے سبب سے آنے والا مادہ مذى ہى ہوتا ہے، اور اصل يہى ہے كہ اس كے علاوہ كوئى اور چيز نہيں، چنانچہ پانى كے ساتھ مذى سے لباس پاك كيا جائيگا، اور اس پر غسل واجب نہيں.
ليكن اگر نيند سے قبل شہوت كى سوچ و فكر، اور بيوى سے بوس و كنار نہ ہوا ہو تو يہ نمى منى شمار ہوگى.
كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا گيا كہ:
اگر كوئى شخص اپنے لباس ميں نمى پائے اور اسے احتلام ہونا ياد نہ ہو تو وہ كيا كرے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: وہ غسل كرے.
اور اس شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو شخص خواب تو ديكھے ليكن لباس پر نمى نہ پائے تو اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اس پر غسل نہيں ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 236 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 216 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خطابى رحمہ اللہ تعالى " معالم السنن " ميں كہتے ہيں:
" اس حديث سے ظاہر يہ ہوتا ہے كہ: لباس ميں نمى ديكھنا غسل واجب كرتا ہے، چاہے اسے منى كا يقين نہ بھى ہو، يہ قول تابعين جن ميں عطاء، الشعبى اور نخعى شامل ہيں سے قول مروى ہے. اھـ
اور اس ليے بھى كہ يہ پانى كسى سبب سے ہى خارج ہوا ہے، ليكن احتلام كے علاوہ كوئى اور سبب ظاہر نہيں، اور احتلام كى بنا پر خارج ہونے والا پانى غالبا منى ہى ہوتا ہے، چنانچہ اس مجھول كو عام و غالب سے ملحق كر ديا گيا.
ديكھيں: المغنى ( 1 / 270 ) شرح العمدۃ ( 1 / 353 ).
اور يہ دونوں قول ہى قوى ہيں، اس ليے اگر دوسرا قول ليتا ہے تو ان شاء اللہ كافى ہو گا، اور اگر اپنى نماز كے صحيح ہونے ميں احتياط كرتے ہوئے پہلے قول پر عمل كرے تو يہ افضل اور بہتر ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں دين كى سمجھ عطا فرمائے, واللہ تعالى اعلم.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد