سوال: میں نے سنا ہے کہ : احرام کی حالت میں خواتین کے چہرے کو ڈھانپنے کیلئے استعمال ہونے والا کپڑا لازمی طور پر ناک سے دور رہے، کیا یہ بات درست ہے؟
اگر احرام والی عورت اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھے تو چہرے اور پردے کے درمیان فاصلہ رکھنا ضروری ہے؟
سوال: 227097
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہر مسلمان عورت پر اجنبی مردوں سے چہرہ چھپا کر رکھنا ضروری ہے، اور اگر خاتون حالت احرام میں ہو تو نقاب کے بغیر کسی اور کپڑے سے چہرہ چھپائے گی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام والی خواتین کو نقاب پہننے سے منع کیا ہے۔
یہ مسئلہ تفصیلی دلائل کے ساتھ فتوی نمبر: (172289) میں پہلے گزر چکا ہے۔
اور اگر احرام والی خاتون اپنے چہرے کو دوپٹے یا اوڑھنی وغیرہ سے چھپائے تو اس کیلئے چہرے اور کپڑے کے درمیان فاصلہ رکھنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے، اور نہ ہی ایسی کوئی بات منقول ہے جس سے چہرے اور پردے کے درمیان فاصلہ رکھنا لازمی قرار پاتا ہو، بلکہ عہد نبوی میں خواتین کا عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
“حجاج کےقافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ احرام کی حالت میں تھیں، چنانچہ جیسے ہی قافلہ ہمارے قریب ہوتا تو ہر خاتون اپنی اوڑھنی کو سر کی جانب سے چہرے کے آگے لٹکا لیتی، اور جب قافلہ گزر جاتا تو ہم چہرہ کھول لیا کرتی تھیں” احمد، ابو داود، ابن ماجہ
اور یہ بات عیاں ہے کہ جس اوڑھنی کو سر کی جانب سے چہرے پر لٹکایا جائے تو وہ لازمی طور پر چہرے کو چھوئے گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ “مجموع الفتاوى” (26/112-113) میں کہتے ہیں:
“اور اگر کوئی خاتون اپنے چہرے کو ایسی چیز [کپڑے وغیرہ]سے ڈھانپے جو چہرے کو نہ چھوئے تو یہ بالاتفاق جائز ہے، اور اگر یہ چیز چہرے کو چھو بھی جائے تو تب بھی صحیح بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے، لہذا کسی عورت کو اپنا پردہ چہرے سے دور رکھنے کیلئے لکڑی یا ہاتھ وغیرہ استعمال کرتے ہوئے تکلّف کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے چہرے اور دونوں ہاتھوں کے بارے میں یکساں حکم دیا ہے، اور یہ دونوں مرد کے بدن کے حکم میں ہیں، سر کے حکم میں نہیں ہیں، ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اپنے چہروں کے سامنے پردے کیلئے کپڑا لٹکا لیتی تھیں، اور کپڑے کو چہرے سے دور رکھنے کیلئے کوئی اہتمام نہیں کرتی تھیں۔” انتہی
احرام کی حالت میں مرد کے بدن اور سر میں یہ فرق ہے کہ : مرد کیلئے احرام کی حالت میں ایسی چیز کیساتھ سر ڈھانپنا منع ہے جو سر کیساتھ متصل ہو، چاہے یہ چیز عادتًہ سر پر لی جاتی ہو یا نا لی جاتی ہو، جبکہ بدن کو ڈھانپنے سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ ایسے لباس سے منع کیا گیا ہے جو جسم کے مطابق کاٹ کر تیار کیا گیا ہو۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: “جب ہمارے قریب سے قافلے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنے چہرے پر اپنی اوڑھنی لٹکا لیتی تھی” [ام المؤمنین کے قافلے میں] کوئی بھی خاتون اوڑھنی کو اپنے چہرے سے دور رکھنے کیلئے کسی لکڑی وغیرہ کا استعمال نہیں کرتی تھی، جبکہ کچھ فقہائے کرام [لکڑی وغیر استعمال کرنےکے] قائل بھی ہیں، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام کی ازواج اور امہات المؤمنین سے عملاً یا قولاً یکسر ثابت نہیں ہے، چنانچہ ایسی چیزوں کا استعمال احرام کا بنیادی حصہ اور شعار نہیں ہوسکتا جس کا جاننا ہر عام و خاص پر لازمی ہو۔”انتہی
” بدائع الفوائد ” (2/664-665)
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“احرام والی خواتین کیلئے اپنے دوپٹے وغیرہ کو چہرے کے آگے ڈالنا جائز ہے، اس کیلئے کسی ایسی چیز کو استعمال ضروری نہیں ہے جو کپڑے کو چہرے سے الگ رکھے، اور اگر یہ کپڑا چہرے کو لگ بھی جائے تو عورت پر کچھ لازم نہیں ہوگا؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے وہ کہتی ہیں: ” قافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم ۔۔۔” اور گذشتہ مکمل حدیث ذکر کی” انتہی
” مجموع فتاوى شیخ ابن باز ” (16/54-55)
ابن باز رحمہ اللہ اسی طرح (16/56) میں کہتے ہیں:
“بہت سی خواتین کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے پردے کے نیچے کسی ایسی چیز کا استعمال کرتی ہیں جو کپڑے کو چہرے سے دور رکھے، ہمارے علم کے مطابق شریعت میں اسکی کوئی دلیل نہیں ہے، اور اگر یہ کام شرعی ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ضرور بتلاتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس مسئلے کیلئے خاموشی اختیار کرنا آپ کے لئے جائز نہیں تھا” انتہی
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر خاتون کا حجاب احرام کی حالت میں چہرے کو لگ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بر خلاف ان اہل علم کے ، کہ جن کا کہنا ہے کہ : “احرام کی حالت میں چہرے سے پردے کو دور رکھنا لازمی ہے” کیونکہ انکی بات کتاب و سنت کے دلائل سے بالکل عاری ہے” انتہی
” مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین” (22/184)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب