0 / 0

كيا سر ڈھانپنا شرعى طور پر واجب ہے

سوال: 22758

كيا آپ مجھے بتا سكتے ہيں كس عالم دين كا مذہب ہے كہ مردوں كے ليے سر ڈھانپنا واجب ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہمارے علم كے مطابق علماء ميں سے كوئى بھى مردوں كے سر ڈھانپنے كے وجوب كا قائل نہيں ہے، ليكن كچھ علماء كرام نے اسے مستحبات ميں شمار كيا ہے، اور انہوں نے لوگوں كے سامنے سر ننگا كرنے كو خلاف مروت قرار ديا ہے، اور خاص كر جب كوئى زيادہ عمر كا شخص ايسا كرے، يا پھر كوئى عالم دين سر ننگا ركھے تو يہ خلاف مروہ شمار كرتے ہيں، كيونكہ ان كا سر ننگا ركھنا دوسروں كى بنسبت زيادہ قبيح شمار ہوتا ہے.

اور صحيح يہى ہے كہ يہ ہر دور اور ہر معاشرے ميں خلاف مروہ نہيں، بلكہ لوگوں كى عادات كے اعتبار سے اس كا حكم بھى مختلف ہے.

شاطبى رحمہ اللہ نے اسے لوگوں كى عادت كے اعتبار سے دو قسموں ميں تقسيم كيا ہے:

پہلى قسم:

جس كے اچھے يا قبيح ہونے پر كوئى شرعى دليل دلالت كرتى ہو، تو اس ميں شرع كى طرف رجوع كيا جائےگا، اور لوگوں كى عادات كا اعتبار نہيں ہو گا، مثلا ستر ننگا كرنا، كيونكہ يہ قبيح ہے اور شريعت نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے، چاہے اكثر لوگ اس كے عادى ہو جائيں.

اور اسى طرح اس كى مثال نجاست زائل كرنا يہ ايك اچھا معاملہ ہے، جس كا شريعت نے حكم ديا ہے، چاہے اكثر لوگ اس كى كوئى پرواہ نہ كريں اور اس كى صفائى كا خيال نہ كريں، اور نجاست سے بچنے كى كوشش نہ كريں.

دوسرى قسم:

لوگ جس كے عادى ہوں، اور اس كى نفى يا اثبات ميں كوئى شرعى دليل وارد نہ ہو.

اس كى دو قسميں ہيں:

پہلى: وہ عادات جو ثابت ہيں اور تبديل نہيں ہوتيں، مثلا كھانے پينے كى خواہش.

دوسرى: تبديل ہونے والى عادات، تو معاشرے كے مختلف ہونے سے قبيح اور حسن ہونا بھى مختلف ہے.

اس قسم كى امام شاطبى مثال ديتے ہوئے كہتے ہيں: مثلا سر ننگا ركھنا، تو يہ جگہوں اور علاقوں كے اعتبار سے مختلف ہے، مشرقى علاقوں ميں ذو مروت اشخاص كے ليے يہ قبيح ہے، اور مغربى علاقوں ميں قبيح نہيں، تو اس كے مختلف ہونے سے شرعى حكم مختلف ہے، اس طرح اہل مشرق كے ہاں ان كے عادل ہونے ميں يہ جرح اور قدح شمار ہوتا ہے، اور مغرب والوں كے ہاں اسے جرح شمار نہيں كيا جاتا.

ديكھيں: الموفقات ( 2 / 284 ).

نتيجہ يہ حاصل ہوا كہ: مردوں كے ليے سر ڈھانپنا ان امور ميں شامل ہوتا ہے جس كے ليے لوگوں كى عادات كى طرف رجوع كيا جائيگا، اور مرد كو چاہيے كہ وہ اپنے اس معاشرے كى عادات اپنائے جہاں وہ رہ رہا ہے، جب تك وہ عادات شريعت كے مخالف نہ ہوں، ليكن اگر شريعت كے مخالف ہيں تو پھر نہيں، تا كہ لباس وغيرہ شہرت ميں امتياز نہ ہو جس سے شرعا منع كيا گيا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android