میں خاتون ہوں، اگر نماز کسوف یا خسوف ادا کی جانی ہو اور مجھے ماہواری کا سامنا ہو تو میں کیا کر سکتی ہوں؟
اگر گرہن لگ جائے تو حائضہ عورت کیا کرے؟
سوال: 228904
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سورج یا چاند گرہن ہونے پر شرعی عمل یہ ہے کہ مسلمان نماز کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے، کثرت سے ذکر، دعا، استغفار، صدقہ اور دیگر نیک اعمال بجا لائے۔
چنانچہ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اللہ تعالی ان دونوں کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ نیز یہ دونوں کسی شخصیت کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتے، جب تم ان [کسوف یا خسوف] میں سے کچھ دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالی سے دعا مانگو تا آں کہ گرہن کی کیفیت ختم ہو جائے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (1041) اور مسلم : (911) نے روایت کیا ہے، نیز یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
ایسے ہی سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ایک بار سورج گرہن ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھبرا کر اٹھے کہ کہیں قیامت نہ ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد آئے اور نماز پڑھائی لمبے قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ، میں نے آپ کو کبھی اتنی لمبی نماز پڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خطبے میں فرمایا: (اللہ تعالی یہ نشانیاں بھیجتا ہے یہ کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے نہیں ہوتیں، تاہم اللہ تعالی ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس قسم کی کوئی نشانی دیکھو تو فوری ذکر الہی، دعا اور استغفار میں مشغول ہو جاؤ۔)" اس حدیث کو امام بخاری: (1059) اور مسلم : (2156) نے روایت کیا ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (جب تم اس قسم کی کوئی نشانی دیکھو تو فوری ذکر الہی، دعا اور استغفار میں مشغول ہو جاؤ۔) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سورج گرہن کے وقت ذکر کرنے کے باب میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورج اور چاند گرہن کے موقع پر دعا اور استغفار کے ساتھ ساتھ نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گرہن کے وقت صحابہ کرام سے محض نماز ہی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ آپ نے ان سے کسی بھی ایسے عمل کا مطالبہ کیا ہے جو انہیں اللہ تعالی کے قریب تر کر دے، چنانچہ انہیں نماز، دعا اور استغفار وغیرہ کرنے کا حکم دیا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: " شرح صحيح بخاری" از ابن بطال رحمہ اللہ : (3/32)
اس حوالے سے عورت کا حکم وہی ہے جو مرد کا ہے؛ کیونکہ کسوف و خسوف کے متعلق نصوص عام ہیں، اس لیے عورت بھی وہ تمام کچھ کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے اس لیے عورت بھی نماز، دعا، استغفار، اور صدقہ وغیرہ کر سکتی ہے۔
چنانچہ اگر عورت کسی شرعی رکاوٹ کی وجہ سے نماز ادا نہ کر سکے تو پھر ایسی صورت حال میں عورت کے پاس دعا، صدقہ، استغفار اور ذکر کرنے کا موقع باقی رہ جائے گا، اسی طرح ان کے علاوہ دیگر کوئی بھی ایسا کام کر سکتی ہے جس سے قربِ الہی حاصل ہو سکے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26753 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات