بائع اور مشتری کے درمیان دلالی کرنے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً اگر کوئی سیلز مین مطلوبہ چیز کی ملکیت حاصل کرنے سے پہلے اس کی قیمت ادا کرنے کا کہتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ میں نے ایک شخص سے مخصوص چیزیں کسی خاص دکان سے خریدنے کا کہا تو اس نے دکان پر جانے سے قبل رقم منتقل کرنے کا کہا، اور حجت یہ پیش کی کہ کچھ لوگ ان کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور جب ہم ان کی مطلوبہ چیز خرید لیتے ہیں تو وہ اپنی ڈیمانڈ کینسل کر دیتے ہیں یا اسی طرح کا کچھ معاملہ کرتے ہیں۔۔۔ تو کیا ایسی صورت میں سیلزمین کو رقم منتقل کی جا سکتی ہے؟ میں نے تو رقم منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ میرے مطابق تو یہ ملکیت میں غیر موجود چیز کو فروخت کرنے کے زمرے میں آتا ہے، اب مجھے نہیں معلوم کہ میرا موقف ٹھیک ہے یا نہیں؟!
کیا سیلز مین کا کسی چیز کی قیمت پیشگی وصول کرنا ملکیت میں غیر موجود چیز کی فروختگی میں شامل ہو گا؟
سوال: 229091
جواب کا خلاصہ
تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ: سیلزمین کسی بھی کسٹمر سے قیمت یا بیعانہ کی ادائیگی کا مطالبہ متعلقہ چیز کی ملکیت سے قبل نہیں کر سکتا، وگرنہ شرعی ممانعت میں ملوث ہو جائے گا کہ وہ غیر ملکیتی چیز کو فروخت کر رہا ہے۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سیلزمین کسٹمر حضرات سے خریداری کی درخواستیں وصول کر کے انہیں دکانوں سے مہیا کر ے اور اس پر معمولی سا نفع بھی لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ فقہائے کرام کے ہاں: " بيع المرابحة للآمر بالشراء " کے تحت آتا ہے، جس کو ہم عصر اکثر علمائے کرام نے جائز قرار دیا ہے، اور فقہی اکادمیوں کی جانب سے اسی کےمطابق حتمی آرا جاری ہوئی ہیں۔
نیز یہ صورت غیر ملکیتی چیز کو فروخت کرنے میں نہیں آتی، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (اس چیز کو فروخت نہ کر جو تیرے پاس نہیں ہے) میں شامل ہوتی ہے؛ کیونکہ عام طور پر مشتری اور بائع کے درمیان ہونے والا معاملہ محض وعدہ ہی ہوتا ہے، خرید و فروخت کا عقد نہیں ہوتا، عقد تو اس وقت ہوتا ہے جب سیلزمین چیز خرید لیتا ہے اور اسے اپنی ملکیت میں شامل کر لیتا ہے۔
دوم:
اس لین دین کے جائز ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ: خریدار اور سیلزمین کے درمیان ابتدائی اتفاق دو طرفہ افراد کے لیے وعدے سے آگے نہ بڑھے، یعنی طرفین کو بعد میں بھی خریداری مکمل کرنے یا ختم کرنے کا پورا حق حاصل ہو۔
لیکن اگر دوطرفہ یا یک طرفہ خریداری مکمل کرنے کا پابند بنایا جا رہا ہو تو یہ پھر غیر ملکیتی چیز کو فروخت کرنے کے زمرے میں شامل ہو جائے گا؛ کیونکہ اس صورت میں چیز کی ملکیت نہ ہونے کے باوجود فروخت کرنے کا عقد کر لیا گیا ہے۔
جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب کوئی شخص کسی کو کوئی چیز دکھائے اور کہے: تم یہ خرید لو اور میں تمہیں اس میں اتنا نفع دوں گا، تو وہ شخص اس چیز کو خرید لیتا ہے، تو یہ بیع جائز ہے۔
تاہم جس شخص نے یہ کہا کہ میں تمہیں اتنا نفع دوں گا اسے مکمل اختیار ہے کہ اب وہ یہ چیز خریدے یا نہ خریدے۔
اسی طرح یہ صورت بھی جائز ہے کہ وہ کہے: میرے لیے فلاں صفات کی حامل چیز خرید لو، یا مطلقاً کہہ دیتا ہے کہ میرے لیے کچھ بھی خرید لو میں تمہیں نفع دوں گا، تو ان صورتوں میں خریداری کرنا بالکل ٹھیک ہے ۔۔۔ اور نفع کے ساتھ دوسرے شخص کو فروخت کرنا مکمل اختیار کے ساتھ ہو گا چاہیں تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کر لیں اور چاہیں تو نہ کریں۔
لیکن اگر پہلا شخص خریداری کرتا ہی الزامی طور پر ہے کہ لازما دوسرا شخص یہ چیز خریدے گا تو یہ دو اعتبار سے درست نہ ہو گی:
پہلا اعتبار: کہ پہلے خریدار نے اس چیز کو اپنی ملکیت میں لانے سے قبل ہی فروخت کر دیا۔
دوسرا اعتبار: اس میں ایک دوسرے کو خطرے میں ڈالنے کا پہلو بھی پایا جاتا ہے کہ اگر تم فلاں چیز اتنے میں خریدو گے تو میں تمہیں اتنا نفع دوں گا۔"
" الأم " از امام شافعی، طبعہ: دار الوفا، (4/ 75)
تو یہاں امام شافعی رحمہ اللہ نے دوسرے شخص پر خریداری کو لازم بنانے کے عمل کو غیر ملکیتی چیز فروخت کرنے کے زمرے میں شمار کیا ہے۔
اسی طرح اسلامی فقہ اکادمی (40 – 41 )کی قرار دادوں میں ہے کہ:
"نفع کی مقدار بیان کر کے کسی چیز کی خریداری کو لازم بناتے ہوئے وعدہ لینا بذات خود ایک بیع کی صورت ہے؛ اور ایسی صورت میں یہ لازم ہے کہ بائع مبیع کا مالک ہونا چاہیے، تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کی مخالفت لازم نہ آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ملکیت میں غیر موجود چیز کی فروختگی سے منع فرمایا ہے۔" ختم شد
اسی طرح ابن باز رحمہ اللہ کی صدارت میں دائمی فتوی کمیٹی (13/ 237)نے یہ فتوی دیا کہ:
"لیکن اگر کسی گاڑی کی خریداری کا عزم ظاہر کرنے والا شخص یہ کہتا ہے کہ دکاندار پہلے اس گاڑی کو اپنے قبضے میں لے گا اور اپنی ملکیت میں لینے کے بعد اسے خریدار کو فروخت کرے گا، تو یہ فروخت کرنے کا وعدہ ہے، نہ کہ فروختگی اس لیے یہ جائز ہے، چنانچہ گاڑی آنے کے بعد یہ جائز ہے کہ دونوں اپنے وعدے کو پورا کر لیں اور یہ بھی جائز ہے کہ خریدار کسی اور سے خرید لے اور دکاندار کسی اور کو فروخت کر لے۔" ختم شد
اسی طرح الشیخ محمد سلیمان اشقر رحمہ اللہ نے اسی مسئلے سے متعلق ابن باز رحمہ اللہ سے سوال پوچھا تو انہوں نے یہ جواب دیا :
"میں آپ کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ جب صارف اور سوال میں مذکور بینک کسی بھی چیز کے خریدنے پر رضا مند ہو جائیں ، تو صارف خریداری سے قبل کسی بھی چیز کا ذمہ دار نہیں ہو گا تا آن کہ بینک اور صارف کے درمیان خریداری کا معاہدہ بینک کے اس چیز کا مالک بننے کے بعد ہو، اور اگر مالک بننے سے قبل فروخت کر دی جاتی ہے تو بیع باطل ہو گی، اور صارف کسی بھی چیز کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔ محض وعدہ کرنے سے صارف پر سامان خریدنے کے اخراجات نہیں ڈالے جا سکتے، بلکہ یہ تمام کے تمام اخراجات بینک کے ذمہ ہوں گے۔" ختم شد
" بيع المرابحة " از ڈاکٹر محمد سلیمان اشقر، صفحہ: (54 – 55)
اسی طرح الشیخ صدیق ضریر کہتے ہیں:
"خریداری کا حکم دے کر اس پر متعین نفع دینے والے شخص پر خریداری کو لازم قرار دینے سے ملکیت میں غیر موجود چیز کو فروخت کرنا لازم آتا ہے؛ کیونکہ اس بات میں کہ انسان کے پاس کوئی چیز نہ ہو اور پھر بھی کہے کہ میں تمہیں فلاں چیز فروخت کرتا ہوں، اور اس بات میں کوئی فرق نہیں ہے کہ کوئی کہے: تم فلاں چیز خریدوں میں تم سے اتنے نفع کے عوض خرید لوں گا اور مجھ پر خریدنا لازم ہو گا، یہ ملکیت میں غیر موجود چیز کو فروخت کرنا ہے جو کہ منع ہے، حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (اس چیز کو فروخت نہ کرو جو آپ کے پاس نہیں ہے) نیز اگر بینک اور خریداری کا وعدہ کرنے والا صارف، بینک کے گاڑی کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد پھر نئے سرے سے بیع کریں گے تو بھی اس کی صورت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی؛ کیونکہ دونوں یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ یہ بیع ایک دوسرے پر لازم ہے۔" ختم شد
"مجلة مجمع الفقه الإسلامي" (5/ 742) ، مزید کے لیے دیکھیں: " فقه النوازل" از الشیخ بکر ابو زید(2/ 97)
سوم:
سیلزمین بھی سامان کی ملکیت حاصل کرنے سے قبل سامان کی مکمل ، یا خریدار کی خریداری پکی کرنے کے لیے جزوی قیمت بھی پیشگی وصول نہیں کر سکتا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ صارف سے سامان خریدنے سے قبل ہی قیمت وصول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ محض وعدہ نہیں ہے بلکہ خریداری لازم کرنا ہے، اور وصول کی جانے والی رقم در حقیقت اس خریداری کے لازم ہونے کی تاکید ہے۔
اور یہ بات پہلے گزری ہوئی شرط سے متصادم ہے کہ خریدار یا دکاندار یا دونوں میں سے کسی پر خریداری لازم نہ ہو۔
اسلامی فقہ اکادمی کی بیعانہ کے بارے میں قرارداد میں ہے کہ:
" خریداری کا حکم دے کر اس پر متعین نفع دینے کے وعدے کی صورت میں اس مرحلے میں بیعانہ درست نہیں ہو گا، البتہ وعدے کی تکمیل کے لیے جو بیع کی جائے گی ، اس کا بیعانہ درست ہو گا۔" ختم شد
"قرارات وتوصيات مجمع الفقه الإسلامي" (ص: 82)
اسی طرح بینک الراجحی کی شریعہ کونسل کی قرار دادوں (1/330)میں ہے کہ:
"مرابحہ کی صورت میں پیشگی ادائیگی یا بیعانہ کی شرط لگانا جائز نہیں ہے، مرابحہ میں یہ کرنا ہو گا کہ پہلے سامان کو اپنے لیے خریدے اور پھر اسے دوسرے شخص کو فروخت کرے، کونسل کی جانب سے پیشگی ادائیگی اور بیعانہ کو جائز قرار نہیں دیا ؛ کیونکہ مرابحہ کی صورت میں بیع کسی پر بھی لازم نہیں ہوتی، لیکن پیشگی ادائیگی اور بیعانہ کی شرط لگانے سے بیع لازم ہو جاتی ہے۔" ختم شد
اسی طرح بینک البلاد کی شریعہ کونسل کے قراردادوں میں ہے کہ:
"بینک کو کسی بھی صارف سے وعدے کے مرحلے میں کسی بھی صورت میں نقد رقم لینے کی اجازت نہیں ہے، چاہے یہ رقم خریدار کی سنجیدگی واضح کرنے کے لیے ہو، یا مستقبل میں ہونے والی خریداری کی قیمت میں سے جزوی پیشگی ادائیگی ہو، یا بیعانہ کی صورت ہو یا کوئی اور صورت ہو۔" ختم شد
"قرارات الهيئة الشرعية لبنك البلاد" قرار داد نمبر: (15)
یہاں پر اس بات کا خدشہ کہ خریدار بیع نہیں کرے گا، تو یہ خدشہ تو تاجر حضرات کو اپنے ہر معاملے میں ہوتا ہے؛ کیونکہ نفع اور نقصان تجارت کا بنیادی حصہ ہیں۔
یہاں خریدار کے بیع مکمل نہ کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے نقصان کو سیلزمین اس طرح سے ختم کر سکتا ہے کہ وہ چیز واپس کرنے کے اختیار کے ساتھ خریدے تا کہ نہ خریدنے کی صورت میں سامان واپس کر دے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک شخص نے دوسرے کو کہا: یہ مکان یا یہ چیز فلاں شخص سے اتنے کی خرید لو، اور میں تم سے اتنے نفع کے عوض خرید لوں گا۔ اب یہاں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر وہ چیز میں خرید تو لوں لیکن یہ مجھ سے نہ خریدے اور میں اس چیز کو واپس بھی نہ کر پاؤں ! تو یہاں یوں کرے کہ: وہ تین یا زیادہ دن کے واپسی کے اختیار کے ساتھ خریدے، اور خرید کر پہلے شخص کو بتلا دے کہ میں یہ چیز لے آیا ہوں، تو اگر وہ خرید لیتا ہے تو ٹھیک، وگرنہ واپسی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وہ چیز واپس کر دے۔" ختم شد
" إعلام الموقعين" (4/ 29)
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب