میں ایک سرکاری ادارے کی ملازمہ ہوں اور وہاں میری سہیلیاں بھی ہیں، ہمارا آپس میں شادی بیاہ کے موقع پر یا ویسے ہی تحائف کا تبادلہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ ہم ان تحائف کا تبادلہ مفاد پرستی میں نہیں کرتیں؛ کیونکہ ہم سب ایک ہی اسکیل کی ملازمہ ہیں کوئی بھی کسی کا افسر نہیں ہے، میں تھوڑی سی شکی مزاج ہوں اور ہر چیز میں بال کی کھال اتارتی ہوں، میں اس وقت رشوت اور تحفے میں فرق نہیں کر پا رہی۔ میں یہ بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ میں کبھی کبھار اپنے ساتھ چاکلیٹ لاتی ہوں اور اپنے پورے ڈیپارٹمنٹ میں تقسیم کر دیتی ہوں، تو کیا میں اپنی منیجر کو بھی چاکلیٹ دوں؟ یا یہ جائز نہیں ہو گا؟ میرا یہ بھی سوال ہے کہ: میری والدہ تقریباً دو سال پہلے فوت ہو چکی ہیں، جس وقت میری والدہ اسپتال میں تھیں تو میں کبھی اپنے ساتھ چاکلیٹ یا معمول وغیرہ کھانے کے لیے لے آتی تھی ، اور ایک بار میں نے نرسوں کو پیسے بھی تقسیم کیے تھے مقصد یہ تھا کہ نرسیں میری والدہ کا بھر پور خیال رکھیں، اس وقت پیسے دیتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی میرے ذہن میں ایسا نہیں آیا کہ یہ میں رشوت دے رہی ہوں، مجھے اب بہت افسوس ہو رہا ہے میں رشوت کی وجہ سے ملعون نہیں بننا چاہتی، اگر میں اس گناہ سے باز آ جاؤں ، اور نادم ہو جاؤں تو پھر مجھے اس گناہ کی معافی کے لیے مزید کیا کرنا ہو گا؟ کیا سابقہ دو سالوں کے روزے اور نمازوں پر بھی اس کے منفی اثرات رونما ہوں گے؟
ایک خاتون کے تحائف کے تبادلے کے متعلق کچھ سوالات ہیں، اور کیا یہ حرام رشوت میں شامل ہوں گے؟
سوال: 229887
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
تحائف کا تبادلہ مستحب عمل ہے اس سے دلوں کا باہمی تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اسلامی بھائی چارہ پروان چڑھتا ہے۔
جب کہ رشوت حرام ہے اس کے حرام ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے ظلم اور دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے، اس سے خود پسندی اور انانیت پروان چڑھتی ہے۔
چنانچہ دونوں چیزوں میں فرق بالکل واضح ہے کہ: انسان تحفہ کسی کو محبت کی وجہ سے دیتا ہے جبکہ رشوت کسی کو دیتے ہوئے انسان ایسی چیز حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا وہ سرے سے حقدار ہی نہیں ہے، یا اپنے ذمے کسی حق کو ساقط کرنا چاہتا ہے۔
جبکہ ملازمین کے آپس میں تحائف کے تبادلے کے بارے میں یہ ہے کہ: اگر یہ ملازم کے پاس بڑا منصب ہونے کی وجہ سے ہے ، یا یہ کہ وہ مینجر اور قاضی ہے تو پھر یہ ہدیہ حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے؛ کیونکہ اس طرح مینجر یا قاضی تحفہ دینے والے اس شخص کی طرف مائل ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے طرفداری کرتے ہوئے اسے وہ کچھ دے سکتا ہے جس کا وہ حقدار نہیں ہے۔
اس بنا پر: ملازمہ کی طرف سے اپنی سہیلیوں کو دیا جانے والا تحفہ ، گفٹ ہے، رشوت نہیں ہے؛ کیونکہ اس تحفے کی وجہ باہمی دوستی اور محبت ہے، پھر جسے آپ نے تحفہ دیا ہے اس کے پاس کوئی اختیار بھی نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ وہ آپ کی غلط طرفداری نہ کرنے لگے۔
جبکہ افسر اور مینجر کو تحفہ رشوت یا ذریعہ رشوت قرار پائے گا؛ کیونکہ افسر اپنے ماتحت ملازمین کا سربراہ ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے افسر کے بعض فیصلوں میں طرفداری کا عنصر شامل ہو سکتا ہے، اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (139393) کا جواب ملاحظہ کریں۔
البتہ چاکلیٹ جیسی معمولی چیزوں کا تبادلہ تو اسے لوگ عام سی بات سمجھتے ہیں اور اسے رشوت قرار نہیں دیتے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب دفتر کے تمام ملازمین کو دی جائے، مینجر کو خصوصی طور پر زیادہ نہ دیا جائے۔ دوسری طرف یہ بات بھی بالکل غیر مناسب ہو گی کہ جب کوئی چیز سب کو دی جائے اور مینجر کو نہ دی جائے!!
دوم:
نرس یا معالج کو مریض کی جانب سے یا مریض کے لواحقین کی جانب سے تحفہ دینا مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے نرس اس مریض کا خیال دوسروں سے زیادہ رکھے گی جس سے دوسروں کی حق تلفی ہو گی، اور بسا اوقات اس کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ نرس اپنی ذمہ داری کے لیے اس وقت تک تیار ہی نہ ہو جب تک اس کی جیب گرم نہ کی جائے۔
لیکن یہاں بھی چاکلیٹ جیسی معمولی چیزوں کی گنجائش رہے گی کیونکہ لوگ عام طور پر ان چیزوں کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
علاج مکمل ہونے کے بعد معالج کو تحفہ دینے کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟ یا حرام ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر معالج سرکاری اسپتال میں ہے تو پھر اسے کچھ نہیں دینا چاہیے، لیکن اگر تحفہ علاج مکمل ہونے کے بعد دیا، مریض کے گھر جاتے ہوئے پیشگی وعدے کے بغیر تحفہ دیا، اور اس میں کسی قسم کا کوئی مطلب بھی نہیں تھا تو ان شاء اللہ اسے میں حرج نہیں ہو گا۔ تاہم یہ بھی نہ دیں تو زیادہ محتاط عمل ہے، چاہے گھر جاتے ہوئے دیں تب بھی نہ دینا زیادہ محتاط عمل ہے۔ کیونکہ اس طرح وہ قلبی طور پر آپ کی طرف مائل ہو جائے گا، اور ممکن ہے کہ تحفہ دینے والے مریض کا خصوصی طور پر خیال رکھے اور دوسروں کی طرف توجہ نہ دے۔ تو میری رائے یہی ہے کہ سد ذرائع کے طور پر علاج مکمل ہونے کے بعد بھی کچھ نہ دے، اس طرح حیلے بہانوں کا دروازہ بھی بند رہے گا۔ چنانچہ معالج کو کچھ نہ دے ، ہاں اسے دعائیں دے، اس کی کامیابی اور معاونت کی دعا کرے۔ اور اسے کہہ دے: اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔ یہ بھی کہہ دے کہ: ہم آپ کے لیے اللہ تعالی سے مکمل اعانت اور کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ یا اسی طرح کا کوئی اور اچھا جملہ کہہ دے۔" ختم شد
" نور على الدرب " (19 / 380 – 381)
ہم اپنی ویب سائٹ پر پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ ملازمین کو ان کی ملازمت کی وجہ سے تحائف دینا جائز نہیں ہے، تفصیلات کے لیے سوال نمبر: (83590) کا مطالعہ کریں۔
کبھی کوئی مسلمان حرام کام کا ارتکاب ان جانے میں کر لے کہ اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ کام حرام ہے تو اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً
ترجمہ: جو کام تم غلطی سے کر بیٹھو تو اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ جن کاموں کو عمداً کرو تو اس کا گناہ ہو گا، اور اللہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الاحزاب: 5]
کسی کام کے حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اس شخص نے یہ کام عمداً گناہ سمجھ کر نہیں کیا۔ نیز اس کا آپ کی سابقہ نمازوں اور روزوں پر کوئی منفی اثر نہیں ہو گا۔
اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت آئی اور اس نے گناہ چھوڑ دیا، تو سابقہ جو کچھ ہے وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے۔ لیکن جو نصیحت کے بعد دوبارہ پھر گناہ کرے تو یہی لوگ جہنم والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔[البقرۃ: 275]
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ آپ کے سوال میں مذکور چیزوں کا آپ کی نماز، روزہ اور زکاۃ وغیرہ جیسی نیکیوں اور عبادات سے کوئی تعلق نہیں ہے، چاہے آپ کی جانب سے یہ کام جائز صورت میں ہوا ہو یا حرام صورت میں۔ چنانچہ آپ نے جو کوئی بھی نیکی کی ہو گی اس نیکی کو کوئی گناہ یا خطا خراب نہیں کر سکتا، تو اگر وہ غلطی اور گناہ آپ نے کیا ہی ایسی حالت میں تھا جب آپ کو علم ہی نہیں تھا کہ یہ کام غلط ہے تو وہ آپ کی نیکی پر منفی اثر انداز کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اگر وہ کام حقیقت میں ہو ہی مباح اور جائز اس میں کسی قسم کی غلطی نہ ہو تو وہ کیسے اس نیکی کو برباد کر سکتا ہے؟
ہم آپ کو سب سے اہم جو نصیحت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ اس قسم کے شکی خیالات اور مزاج کی طرف بالکل بھی دھیان نہ دیں، اللہ تعالی سے پناہ مانگیں، اور ان کی جانب بالکل توجہ نہ دیں۔ اگر یہ خیالات آپ کے ذہن میں بیٹھ گئے تو ممکن ہے کہ یہ شکی مزاج آپ کے دین اور آخرت سب کو برباد کر دیں۔
وسوسوں کے علاج کے متعلق ہماری ویب سائٹ پر بہت سے جوابات موجود ہیں آپ ان کا مطالعہ کریں اور ان میں موجود نصیحتوں پر عمل کریں، ہم آپ کو یہ بھی مشورہ دیں گے کہ آپ کسی معتبر ماہر معالج سے بھی رابطہ کریں؛ کیونکہ روحانی ایمانی اور معرفت پر مبنی علاج کے ساتھ طبی اور مادی علاج یکجا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے اللہ کے حکم سے علاج کے رفتار میں تیزی آتی ہے، اس طرح آپ کے اعصاب وسوسوں کے تناؤ سے بھی باہر نکل آئیں گے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب