0 / 0
1,25410/07/2023

اصول: اشیا میں اصل جواز ہے۔

سوال: 231261

ہم کھانے، لباس اور صابن وغیرہ کے متعلق یہ اصول کہ : "اشیا میں اصل جواز ہے۔" کو کس حد تک لاگو کر سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر: میں کوئی بھی کھانے کی چیز خریدنا چاہتا ہوں، اور اس پر اجزائے ترکیبی کی تفصیلات بھی درج نہیں ہیں تو میں کیا کروں؟ اسی طرح کوئی بھی ایسی چیز جس کے اجزائے ترکیبی کا مجھے علم نہیں ہے، یا ان کی ماہیت کا مجھے علم  نہیں، یا  اجزائے ترکیبی کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں، تو مجھے کیا کرنا ہو گا؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اہل علم نے ایک قاعدہ: "اشیا میں اصل جواز ہے۔" بیان کیا ہے جو کہ متعدد شرعی دلائل کا خلاصہ ہے۔

جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"واضح رہے کہ جتنی بھی چیزیں موجود ہیں چاہے ان کی جو بھی اقسام ہیں یا ان کے اوصاف کتنے ہی مختلف ہیں سب کے بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لیے مطلق طور پر حلال  ہیں، یہ سب چیزیں انسانوں کے لیے پاک ہیں کہ انہیں استعمال کرنا، ہاتھ لگانا، چھونا حرام نہیں ہے۔ یہ بہت جامع جملہ ہے، اور ہر چیز کو شامل قول ہے، یہ بڑے ہی کام کی بات ہے، یہ بڑی برکت والا اصول ہے کہ حاملین شریعت اس اصول سے بے شمار اور لا تعداد امور میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں، لوگوں کے لیے پیش آمدہ نت نئے مسائل میں روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے دسیوں شرعی دلائل اس وقت میرے ذہن میں آ رہے ہیں، یہ دلائل کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور مومنین کے طرزِ زندگی پر مشتمل ہیں اور ان تینوں اقسام کے دلائل کو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے کہ: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو، نیز اصحاب اقتدار کی بھی۔ [النساء: 59]  ایسے ہی فرمایا: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا ترجمہ: یقیناً تمہاری اللہ، رسول اللہ اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی ہے۔[المائدة: 55]  نیز یہ اصول مختلف قسم کے قیاس، اعتبار ، رائے اور استبصار سے بھی ثابت ہوتا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21 / 535)

اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  نے اس کے دلائل ذکر کیے ہیں، مذکورہ بالا کتاب کے محولہ صفحات کا مطالعہ مفید ہو گا۔

اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جتنی بھی  مفید چیزیں ہیں، اور ان چیزوں سے انسان کچھ بھی کشید کرے تو اس سے اس وقت تک فائدہ اٹھانا جائز ہے جب تک اس سے ممانعت کی دلیل نہیں ملتی۔

دوم:
کھانے، پینے، لباس اور صفائی کے لیے استعمال ہونے والے مواد کے متعلق یہ ہے کہ جن کے متعلق شرعی نص نہیں ہے تو ان میں بھی یہی اصول کار فرما ہو گا، تاہم اس سے دو چیزیں مستثنی ہوں گی:

پہلی چیز: ایسی چیز جس میں معتبر اور مؤثر نقصان ہے؛ کیونکہ نقصان دہ چیزوں کے بارے میں اصل حکم حرمت کا ہے، چنانچہ یہ چیزیں سوال میں مذکور اصول : " اشیا میں اصل جواز ہے ۔"کے تحت نہیں آئیں گی۔

کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ:
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
ترجمہ: اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ [البقرۃ: 195]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان یہ بھی ہے کہ:
وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
ترجمہ: اور اپنی جانوں کو قتل مت کرو، یقیناً اللہ تعالی تم پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔[النساء: 29]

ایسے ہی سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچاؤ) اس حدیث کو حاکم رحمہ اللہ : (2 / 57 – 58) نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح الاسناد کہہ کر مسلم کی شرط کے مطابق قرار دیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (1 / 498) میں صحیح قرار دیا ہے۔

الشیخ المفسر محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ نے اس مسئلے کی مکمل تحقیق پیش کی ہے کہ : "اگر غیر منصوص چیز میں نقصان ہی نقصان ہو فائدہ بالکل بھی شامل نہ ہو تو ایسی چیز میں اصل حرمت ہے؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)  اور اگر اس چیز میں کسی طرح سے بھی نفع کا امکان ہو ، لیکن دوسری طرف نقصان بھی ہو تو اس پھر اس کی تین حالتیں ہیں:
پہلی حالت: فائدہ نقصان سے یقینی طور پر زیادہ ہو۔
دوسری حالت: نقصان یقینی طور پر فائدے سے زیادہ ہو۔
تیسری حالت: نفع اور نقصان دونوں ہی یکساں ہوں۔ تو اگر نقصان فائدے کے برابر یا زیادہ ہے تو یہاں منع کا حکم برقرار رہے گا؛ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ: (نہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ) ، ویسے بھی نقصان سے بچاؤ فائدے سے مقدم ہوتا ہے۔
اور اگر منافع کا امکان زیادہ ہو  تو ظاہر یہی لگتا ہے کہ جائز ہو گا؛ کیونکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ  راجح مصلحت  کو مرجوح خرابی پر ترجیح حاصل ہو گی۔" ختم شد
" أضواء البيان " (7 / 793 – 794)

دوم:
گوشت اور ذبیحے کے بارے میں اصل حرمت ہے۔

کیونکہ گوشت اور ذبح شدہ جانور کھانا منع ہے تا آں کہ شرعی شرائط کی روشنی میں انہیں ذبح کرنا ثابت ہو جائے۔

علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی چیز کا اصل حکم ممانعت کا ہو تو ان چیزوں میں سے حلال وہی ہو گی جس میں مطلوبہ شرائط  پوری ہوں اور اس کے استعمال کے بھی مخصوص طریقے ہی جائز ہو ں گے؛ مثلاً: جنسی تعلق  صرف نکاح اور ملک یمین کی صورت میں ہی جائز ہے باقی تمام حرام ہیں۔ اسی طرح بکرے وغیرہ کا گوشت ذبح کرنے کے بعد ہی کھانا جائز ہو گا۔ لہذا اگر ان شرائط میں جس قدر شک پایا گیا ، اور کسی بھی چیز کے حلال ہونے کے مخصوص طریقے میں یقین حاصل نہ ہو سکا تو یہ چیزیں حرام اور ممنوع ہی رہیں گی۔" ختم شد
" معالم السنن " (3 / 57)

تاہم ذبیحے کے حلال ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ، یا (یہودی یا عیسائی )اہل کتاب  میں سے ہو۔ اس کے بعد ہر ذبیحے کے ذبح کرنے کے طریقے کے متعلق مزید تحقیق کرنا شرط نہیں ہے۔ جیسے کہ پہلے سوال نمبر: (223005 ) کے جواب میں گزر چکا ہے۔

اس بنا پر:
اسلامی یا اہل کتاب کے ممالک میں موجود ذبیحے کے متعلق یہ حکم لگایا جائے گا کہ وہ حلال ہیں، الا کہ ہمیں یقینی طور پر ثبوت مل جائیں کہ ان جانوروں کو غیر اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے، مثلاً: گلا دبا کر، یا بجلی کے جھٹکے لگا کر یا اس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا وغیرہ تو پھر وہ حرام ہوں گے۔

ایسی مصنوعات جن کے حرام ہونے کے متعلق کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ، یا اس کے اجزائے ترکیبی میں حرام یا نقصان دہ چیز بیان نہیں کی گئی تو ہم اس کے بارے میں بنیادی حکم یہ لگائیں گے کہ وہ چیز حلال اور پاک ہے، اس بنیادی اور اصولی حکم کو ہم محض شک یا غیر معتبر بات کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے۔

چنانچہ جب کسی کھانے کی چیز میں حرام عناصر شامل ہوں تو پھر کیا اسے مکمل طور پر کھانا حرام ہو جائے گا؟ اس حوالے سے اس میں تفصیل ہے جس کے متعلق ہم پہلے سوال نمبر: (114129 ) میں تفصیلی گفتگو کر آئے ہیں۔

اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر حرام عنصر  جوں کا توں اپنی اصلی حالت میں موجود ہے؛ تو اسے کھانا حرام ہے۔ اور اگر حرام عنصر رد عمل کی وجہ سے یا پراسیسنگ کے مراحل کی وجہ سے کسی اور مادے میں تبدیل ہو گیا ہے ، اور حرام عنصر اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے تو اہل علم کے راجح موقف  کے مطابق اسے استعمال کرنا جائز ہے۔

سوم:
جہاں تک تعلق لباس کا ہے تو لباس بھی اسی اصول " اشیا میں اصل جواز ہے ۔" کے تحت آتا ہے، تو ہر لباس حلال ہے، الا کہ جسے شریعت منع کر دے، مثلاً: قدرتی ریشم مردوں کے لیے حرام ہے، اسی طرح  ایسا چمڑا جو رنگنے کے باوجود بھی پاک نہیں ہوتا وہ بھی حرام ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android