اگر دوران حمل عورت كو خون كے قطرے آئيں تو كيا وہ نماز ادا كرتى رہے يا كہ اسے عذر شمار كرتے ہوئے نماز ترك كر دينى چاہيے ؟
يا خون كے قطرات آنے كے وقت ترك كر كے خون بند ہونے كے بعد نماز كى قضاء كرے ؟
دوران حمل خون كے قطرے ديكھنے پر نماز ترك كرنا
سوال: 23400
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حاملہ عورت كو آنے والا خون حيض بھى ہو سكتا ہے، اور فاسد خون بھى يا پھر نفاس كا خون بھى ہو سكتا ہے، نفاس كا خون اس وقت ہو گا جب وہ ولادت سے قبل خارج ہو، بعض علماء كا كہنا ہے كہ اگر وضع حمل سے دو يا تين روز قبل آئے تو يہ نفاس كا خون ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
وضع حمل سے دو يا تين روز قبل آنے والا خون نفاس كا خون ہے؛ كيونكہ يہ خون ولادت كے سبب خارج ہو رہا ہے تو يہ نفاس ہى ہو گا جيسا كہ ولادت كے بعد ہوتا ہے، يہ اس ليے كہ حاملہ عورت كو خون نہيں آتا اور اگر يہ وضع حمل كے قريب آئے تو ظاہرا يہ ولادت كے سبب سے ہے اور خاص كر درد زہ كے وقت.
ديكھيں: شرح المعدۃ ( 1 / 514 – 515 ).
اور اگر حيض كے خون كى طرح اور ماہوارى كے اوقات ميں ہو تو يہ حيض كا خون ہوگا، شيخ محمد بن ابراہيم اور ابن عثيمين رحمہم اللہ نے يہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 2 / 97 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
راجح يہ ہے كہ: اگر حاملہ عوت كو خون اس كے وقت اور مہينہ اور حال ميں آئے تو يہ حيض كا خون ہے، اس كى بنا پر نماز اور روزہ وغيرہ ترك كيا جائيگا، ليكن يہ حيض سے مختلف اس طرح ہے كہ عدت ميں اس كا كوئى اعتبار نہيں ہوگا؛ كيونكہ حمل اس سے زيادہ قوى ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 405 ).
حاملہ عورت كو بھى حيض آسكتا ہے، امام شافعى كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے، ليكن حاملہ عورت كو حيض آنا بہت ہى نادر ہے.
ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر ( 59 ).
اور اگر يہ اور وہ نہ ہو تو يہ دم فاسد ہو گا، اور وہ استحاضہ كے دوران آنے والا سرخ خون ہے، جسے عام عورتيں نزيف كا نام ديتى ہيں.
يہ خون عورت كو نماز روزہ سے منع نہيں كريگا بلكہ عورت طاہر اور پاك صاف عورتوں كے حكم ميں ہوگى.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 / 270 ).
اور يہ تيسرى قسم سوال ميں مذكورہ عورت پر منطبق ہوتى ہے، خون كے يہ قطرے حيض نہيں، اس ليے عورت نماز اور روزہ سے نہيں ركے گى اور نہ ہى وہ حائضہ عورت كے احكام ميں ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب