ميرى سمجھ كے مطابق دين ميں نئے ايجاد شدہ كام بدعت ہيں، اس بنا پر لاؤڈ سپيكروں كے ذريعہ اذان دينا كيسا ہے ؟
كيا اذان كے ليے لاؤڈ سپيكروں كا استعمال بدعت ہے ؟
سوال: 23443
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بدعت كا معنى اور اس كا اصول جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 7277 ) اور (10843 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
لاؤڈ سپيكروں كے ذريعہ اذان دينے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ سامعين تك آواز پہنچانے كا ايك ذريعہ ہے، اور وسائل كو مقاصد كے احكام حاصل ہيں، چنانچہ مؤذن كا اذان ميں آواز بلند كرنا اور لوگوں تك پہنچانا مقصود و مطلوب امر ہے، اور اس كے ليے جو وسيلہ ہو گا وہ بھى مطلوب ہو گا.
” جس طرح دور حاضر كا طاقتور اسلحے كا استعمال اور اس كى ديكھ بھال اس فرمان بارى ميں شامل ہوتى ہے:
اور تم ان كے ليے اپنى استطاعت كے مطابق قوت كى تيارى كرو .
اور تباہ كن اسلحہ سے بچاؤ اور قلعہ بندى اس فرمان بارى تعالى ميں داخل ہے:
اور اپنا بچاؤ كر كے ركھو
اور سندرى جہازوں اور طياروں و ہوائى جہازوں پر قدرت درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں داخل ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے، جو وہاں تك كى راہ كى استطاعت ركھے .
يہ سب اور اس كے علاوہ ہر قسم كے وسائل اور قوت اور جھاد كے حصول كے اوامر ميں داخل ہے، اور اسى طرح نافع كلام اور مقالات دور دور علاقوں اورجگہوں ميں ٹيلى گرام، اور ٹيلى فون كے ذريعہ پہنچانا بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كے اس حكم ميں داخل ہے كہ مخلوق كو حق كى تبليغ كى جائے، كيونكہ مختلف قسم كے وسائل استعمال كر كے حق اور كلام نافع مخلوق تك پہنچانا اللہ تعالى كى نعمتوں سے ہے.
اور نئى نئى ايجادات ميں ترقى كرنا تا كہ دينى اور دنياوى مصلحت كا حصول ہو سكے يہ بھى جھاد فى سبيل اللہ ميں داخل ہے.
شيخ سعدى رحمہ اللہ كے خطبہ سے اقتباس ختم ہوا، يہ خطبہ شيخ رحمہ اللہ نے اس وقت ديا تھا، جب مسجد ميں لاؤڈ سپيكر لگايا اور كچھ لوگوں نے اس كا انكار كيا.
ديكھيں: مجموعۃ مؤلفات ابن سعدى ( 6 / 51 ).
اسى طرح نافع علم اور لوگوں كواسلام كى دعوت دينے كے ليے انٹرنيٹ كا استعمال بھى ان مفيد امور ميں شامل ہوتا ہے جس سے عظيم شرعيت كے معانى ثابت ہوتے ہيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اپنى اطاعت و فرمانبردارى پر ہمارى مدد فرمائے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات