سوال: میں ایک حکومتی ادارے کے شعبہ تعلقات عامہ میں کام کرتا ہوں، میں تمام حکومتی وفود کیلیے ویزا کےاجراء، ہوٹل بکنگ، ٹکٹ کنفرمیشن وغیرہ کا انچارج ہوں، میرے آفیسر نے بیرون ملک سفر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے ان کی کسی بھی ہوٹل میں بکنگ کی تو وہ وہاں پر شراب نوشی کرے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ اور شیطانی امور بھی سر انجام دے، تو کیا مجھے اپنے آفیسر کیلیے یا کسی اور کیلئے ہوٹل بکنگ کرنے کی وجہ سے گناہ ملے گا؟ جو وہاں جا کر حرام کاموں میں ملوّث ہو جاتے ہیں۔
دورانِ سفر گناہوں کا ارتکاب کرنے والے مسافر کیلیے بکنگ کرنا جائز ہے؟
سوال: 237078
جواب کا خلاصہ
پہلی صورت میں سفر پر اعانت جائز ہے، دوسری صورت میں جائز نہیں ہے۔ نیز آپ کی ملازمت حکومتی وفود کیلیے بکنگ پر مشتمل ہے تو وہ جائز امور کیلیے ہی سفر کرتے ہیں، اس لیے آپ ان کیلیے بکنگ کر سکتے ہیں، چنانچہ جو شخص اپنے سفر میں گناہ کا ارتکاب کرے تو وہ خود ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سفر میں گناہوں کا ارتکاب کرنے والے مسافروں کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
مسافر کا سفر پر جانے کیلیے مقصد ہی گناہوں کا ارتکاب ہو، مثلاً: زنا، شراب نوشی، اور مسلمانوں سے جنگ یا کسی بھی گناہ کے کام کیلیے کوئی شخص سفر پر جائے، تو ایسے شخص کی کسی بھی صورت میں اعانت کرنا جائز نہیں ہے، فقہائے کرام ایسے شخص کو “سفر کی وجہ سے گناہگار” کہتے ہیں۔
جمہور علمائے کرام ایسے شخص کیلئے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز نہیں سمجھتے؛ کیونکہ اس طرح گناہوں کے کام پر اس کی اعانت ہوگی۔
غزالی کہتے ہیں:
” سفر کی وجہ سے گناہگار بننے والا شخص سفر کی رخصتوں پر عمل نہیں کریگا، مثلاً: بھگوڑا غلام، اور ڈاکو وغیرہ ؛ کیونکہ سفر کی رخصت مسافر کی اعانت ہوتی ہے، اور گناہ کے کام پر اعانت نہیں کی جا سکتی” انتہی
“الوسيط في المذهب” (2/ 251)
جوینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سفر کی رخصتوں کو اس لیے جاری رکھا گیا ہے کہ اس طرح مسافر کو سفر کے دوران مشقت و تنگی کی حالت میں مدد ملتی ہے، اور شریعت کے بارے میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ گناہ کے کاموں کیلئے اعانت کرے” انتہی
“نهاية المطلب في دراية المذهب” (2/ 459)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر وہ شخص سفر کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہو مثلاً: ڈاکو اور چور وغیرہ تو کیا اس کیلئے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا جائز ہے کہ وہ نماز قصر پڑھے اور روزہ چھوڑ دے؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔
مالک، شافعی، اور احمد اس بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کیلیے قصر اور روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے، تاہم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ وہ اپنے سفر میں نماز قصر اور روزہ چھوڑ سکتا ہے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (18/ 254)
دوسری صورت:
یہ ہے کہ: سفر تو اصل میں صحیح اور جائز ہو، لیکن اپنے اس سفر میں کوئی گناہ کا ارتکاب کر لے، تو ایسے شخص کی سفر کے دوران اعانت کی جا سکتی ہے، چنانچہ ایسی صورت میں اس مسافر کی مدد اور اعانت گناہ کیلیے اعانت اور سفر شمار نہیں ہوگا؛ کیونکہ یہاں پر جائز سفر کیلئے مدد کی جا رہی ہے، نہ کہ دوران سفر کیے جانے والے گناہ پر۔
فقہائے کرام ایسے شخص کو ” سفر میں گناہ کرنے والا” کہتے ہیں۔
فقہائے کرام نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اپنے سفر میں گناہ کرنے والا شخص سفر کی رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کی اعانت گناہ کے کام پر اعانت شمار نہیں ہوگی۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اپنے سفر میں گناہ کا ارتکاب کرنے والا شخص -یعنی جس کا سفر تو حقیقت میں درست ہے، لیکن اس سفر کے راستے میں شراب نوشی وغیرہ کا ارتکاب کر لیتا ہے-تو اس کیلیے رخصتوں پر عمل کرنا جائز ہے” انتہی
” الأصول والضوابط” (ص: 44)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے “سفر کی وجہ سے گناہ گار” اور “سفر میں گناہ کرنے والے” کے درمیان فرق کیا ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ: اگر سفر تو جائز ہو جیسے کہ حج ، عمرہ، جہاد وغیرہ تو اس کیلیے نماز قصر کرنا اور روزہ چھوڑنا جائز ہے، اس بارے میں ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے، چاہے دوران سفر اس سے کوئی گناہ سر زد ہی کیوں نہ ہو جائے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (18/ 254)
رافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سفر میں رخصتیں تخفیف اور سفر کی آسانی کی وجہ سے قائم کی گئی ہیں، چنانچہ جس کام کے ذریعے کوئی بھی براہ راست گناہ ہوتا ہو ایسے کام کیلیے تعاون کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن اگر سفر بذات خود ٹھیک مقصد کیلئے ہے، لیکن مسافر راستے میں کسی گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اسے سفر کرنے سے منع نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے صرف گناہ سے منع کیا جائے گا” انتہی
” العزيز شرح الوجيز ” (2/223)
یہاں رافعی رحمہ اللہ کی بات اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اگر سفر سے نہیں روکا جائے گا تو پھر ایسے سفر کیلیے اعانت بھی درست ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
“دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے کے سفر کا مقصد ہی گناہ ہے، جبکہ دوسرے شخص کا مقصد گناہ نہیں ہے بلکہ کوئی اور جائز کام ہے، لیکن اس سے گناہ سر زد ہو جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ : ایک شخص آپ سے عمارت کرائے پر لیتا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عمارت میں تفریحی اسٹیج بنائے گا تو ایسے شخص کو کرائے پر عمارت دینا حرام ہے، لیکن اگر کسی شخص نے آپ سے عمارت رہنے کیلیے کرائے پر لی اور پھر وہاں اسے تفریحی اسٹیج لگا لیا تو ایسی صورت میں اسے کرائے پر دینا جائز ہوگا۔
دونوں میں فرق یہ ہے کہ : پہلی صورت میں حرام کام کیلیے عمارت کرایہ پر لی گئی اور دوسری صورت میں جائز کام کیلیے عمارت کرایہ پر لی گی لیکن بعد میں اس نے حرام کام بھی شروع کر دیا” انتہی
“تعليقات ابن عثيمين على الكافي” (3/ 126)مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق
چنانچہ اگر شریعت کسی شخص کو سفر میں گناہ کا عمل کرنے والے کو سفر کی رخصتیں اپنانے کی اجازت دے رہی ہے، اور ان رخصتوں سے اسے دوران سفر مدد بھی ملتی ہے تو اسی طرح سفر کے دیگر معاملات کا بھی یہی حکم ہوگا، مثال کے طور پر جہاز کی ٹکٹ، اور ہوٹل کی بکنگ وغیرہ۔
ہم نے شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ سے اس مسئلہ کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا:
“اگر سفر بذات خود جائز ہے لیکن مسافر سے دوران سفر کسی غلطی کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس کیلیے بکنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر سفر کسی حرام مقصد کیلیے ہے تو پھر سفر کیلیے اس کی اعانت درست نہیں ہے” انتہی
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب