0 / 0
4,09916/11/2016

غیر ممالک میں بطور ریل گاڑی ڈرائیور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: 238766

سوال: میرا ارادہ ہے کہ لندن میں بطورِ ریل گاڑی ڈرائیور کام کروں، تو کیا اگر ریل گاڑی کے سوار اپنے ساتھ شراب اٹھا کر لے آتے ہیں تو مجھے اس کا گناہ ملے گا؟ یہ بات واضح رہے کہ ریل گاڑی کے ڈرائیور کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ سواریاں اپنے ساتھ کیا کچھ اٹھا کر لے جار رہی ہیں، وہ اپنے ایک الگ کیبن میں ہوتا ہے، تو کیا مجھ پر وہ حدیث تو لاگو نہیں ہو تی جس میں 10 لوگوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

غیر مسلم ممالک میں آپ کیلیے بطورِ ریل گاڑی ڈرائیور کام کرنے میں مطلق طور پر کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی ہم ایسی ملازمت کو ممنوع سمجھتے ہیں کہ آپ  اس سے کنارہ کشی اختیار کریں، بلکہ یہ اللہ تعالی کے حکم سے حلال روزی کا باعث ہو گا، اس کے درج ذیل اسباب ہیں:

اول: آپ کے اور ریل گاڑی چلانے والی کمپنی کے درمیان معاہدہ صرف اور صرف گاڑی چلانے کا ہے، حرام چیزیں پہنچانے کا نہیں ہے، چنانچہ معاہدوں میں شرعی حکم جاننے کیلیے معاہدوں کی حقیقی صورت کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے جو کہ یہاں صرف اور صرف ریل گاڑی کی ڈرائیونگ ہے۔

جبکہ حدیث میں شراب لے کر جانے والے  پر لعنت سے مراد وہ شخص ہے جو شراب پہنچانے کی نیت کے ساتھ شراب اٹھا کر لے جائے اور اس کے اٹھانے کی وجہ سے اسے منافع بھی ملے نیز وہ شراب نوشی کیلیے براہِ راست معاون بھی ہو، تو یہ سب کی سب شقیں ریل گاڑی یا ہوائی جہاز چلانے والوں پر لاگو نہیں ہوتیں۔

دوم:

جب  معاہدے میں معاہدہ شدہ کام کی نوعیت  جائز ہے تو آپ بنیادی طور پر یہ سوال پوچھنے کے ذمہ دار ہی نہیں ہیں کہ کون اس میں سوار ہو گا اور کیا کچھ سامان لیکر بیٹھے گا، نہ ہی ان کا سامان چیک کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، آپ ان سے سامان کے متعلق پوچھنے کے بھی ذمہ دار نہیں ہیں، آپ نے لوگوں کو ان کے سامان کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے ، اور جو سامان ان کا سفری بیگوں کے اندر ہے وہ مسافروں کے ما تحت ہے، اس سامان  کے متعلق الگ سے حکم نہیں لگے گا، بصورتِ دیگر یہ لوگوں کیلیے بہت ہی تنگی اور سختی کے مترادف ہو گا، چنانچہ ہر گاڑی کے ڈرائیور پر حتی کہ مسلم ممالک میں بھی یہ لازمی ہو گا کہ مسافروں سے  تمام سامان کی تفصیلات پوچھے مبادا کسی کے پاس کوئی شرعی طور پر ممنوعہ چیز تو نہیں ہے!؟ اور اس میں سگریٹ سمیت  موبائلوں میں موجود فحش مواد وغیرہ کی تفصیلات بھی ڈرائیور کو پوچھنی پڑیں گی، اس کی دیگر مثالیں بھی بن سکتی ہیں جو کہ محض تشدد اور تکلّف میں پڑنے والی بات ہے اور ان کا شریعت سے تعلق نہیں ہے۔

بلکہ اگر ہم سامان کے متعلق پوچھنے کو ریل ، جہاز، یا گاڑی کے ہر ڈرائیور کیلیے ضروری قرار دے دیں تو اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ ہم ڈرائیور کو تمام مسافروں سے یہ بات پوچھنے کا بھی ذمہ دار قرار دیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں؟ چنانچہ اگر کوئی ایک شخص بھی کسی حرام کام کیلیے جا رہا ہو تو ڈرائیور سواری نہ چلائے!! اور ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی اس لازم کے غلط ہونے میں تردد کا اظہار کرے۔

یہاں اس لازم کے کالعدم اور باطل ہونے کیلیے یہی بات کافی ہے کہ شریعت ان امور کو لازمی قرار ہی نہیں دیتی، بشرطیکہ معاہدہ شدہ معاملہ جائز ہو اور وہ یہاں اس سوال میں ڈرائیونگ ہے جو کہ -الحمد للہ – مباح اور جائز ہے ۔

سوم:

آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے کہ آپ کو مسافروں کے سامان کے متعلق کوئی خبر نہیں ہو تی؛ جس کا سبب یہ ہے کہ ڈرائیور  عام طور پر ریل گاڑی کے اگلے حصے میں مسافروں سے الگ تھلگ کیبن میں ہوتا ہے، چنانچہ مسافروں کے ساتھ موجود سامان کی تفصیلات ڈرائیور کیلیے مشکل ہے اور اگر سامان بند بیگوں میں ہو تو یہ اور زیادہ مشکل ہے، چنانچہ جہاں پر تفصیلات جاننا ممکن نہ ہو تو وہاں تفصیلات سے متعلق شرعی حکم بھی نہیں لگایا جاتا ۔

چہارم:

اگر ہم ایک فقہی اصول اور ضابطے کو دیکھیں جس پر مجموعی طور پر سب کا اتفاق ہے کہ: “ضمنی امور میں ان چیزوں کو چھوٹ دی جا سکتی ہے جن کو بنیادی امور میں چھوٹ نہیں دی جا سکتی” تو ہمارے جواب کی پوزیشن مزید قوی ہو جاتی ہے کہ ان ریل گاڑی کی ڈرائیونگ جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ چند لوگوں کا حرام چیزیں ساتھ لانا  ایک ضمنی چیز ہے جبکہ بنیادی معاملہ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا ہے اب چونکہ بنیادی معاملہ یعنی لوگوں کو ان کے معمول کے سامان کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے تو ضمنی چیز قابل صرف نظر ہو گی۔

فقہائے کرام نے اس فقہی اصول کو بیان کرنے کیلیے  متعدد انداز استعمال کیے ہیں، اور کچھ کے الفاظ کا تعلق سوال کے ساتھ بہت زیادہ ہے، مثلاً: امام سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بسا اوقات خرید و فروخت میں ایسی چیزیں ضمنی طور پر آ جاتی ہیں جن کی مستقل طور پر خرید و فروخت جائز نہیں ہوتی” انتہی
“المبسوط” (11/ 179)

قدوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تجارتی معاہدوں میں کچھ چیزیں ضمنی طور پر شامل ہو جاتی ہیں جن کی الگ سے خرید و فروخت جائز نہیں ہوتی” انتہی
“التجريد” (8/3792)

امام سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جن چیزوں کو بنیادی طور پر قابل گرفت سمجھا جاتا ہے وہ کسی چیز میں ضمناً آ جائیں تو قابل گرفت نہیں ہوتیں” انتہی
“الأشباه والنظائر” (ص120)

مزید کیلیے دیکھیں: “حاشية العطار على شرح الجلال المحلي على جمع الجوامع” (2/160) اور اسی طرح: “معلمة زايد للقواعد الفقهية والأصولية” (11/ 531)

اسی سے ملتی جلتی مثالوں میں یہ بھی ہے کہ فقہائے کرام کسی بھی چیز کو جائز استعمال کیلیے کرایہ پر دے، مثلاً: ایک اہل کتاب مسلمان کا مکان رہائش کیلیے کرایہ پر لیتا ہے، لیکن وہ اس مکان میں رہتے ہوئے ضمنی طور پر کچھ حرام کام بھی [مثلاً: عیسائیت کے مذہبی امور]کرتا ہے، اور مکان صرف اسی کام کیلیے کرایہ پر نہیں دیا گیا تھا تو یہ قابل معافی ہے، اس میں مالک پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ کرایہ دار ضرور گناہ گار ہو گا، لیکن مالک مکان کو اگر اس چیز کا علم ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اس سے منع کر دے، جیسے کہ حنبلی فقہائے کرام نے کہا ہے۔

اسی طرح امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی غیر مسلم مسلمان سے مکان رہائش کیلیے کرایہ پر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر کرایہ پر لینے کے بعد اس میں شراب نوشی کرے یا صلیب کی پرستش کرے یا مکان میں خنزیر لے آئے ، تو مسلمان کو اس کا کوئی گناہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمان نے اسے اپنا مکان ان کاموں کیلیے نہیں دیا تھا” انتہی
” الأصل” (4/ 17)

اور ہمارے مطالعہ کے مطابق کوئی بھی ایسا عالم نہیں ہے جنہوں نے مباح چیزوں کو معاہدے میں مذکور مباح کاموں کیلیے کرایہ پر دینا  صرف اس خدشے سے منع قرار دیا ہو کہ ممکن ہے کہ کرایہ دار  اس مباح چیز کو ضمنی طور پر کسی حرام کام کیلیے استعمال کر سکتا ہے، اگر کوئی عالم یہ بات کر دے تو اس سے لوگوں کو بہت زیادہ تنگی اور سختی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تو اس طرح سے سائل کے سوال میں مذکور صورت مکمل طور پر اسی سے ملتی جلتی ہے، چنانچہ سواری کو چلانے والے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا بلکہ گناہ اسی کو ملے گا جو حرام چیزیں لے کر جا رہا ہے اور اسے استعمال کرتا ہے۔

پنجم:

مندرجہ بالا تفصیلات کے بعد: علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دور کے ممکنہ خدشات کو روکنے کیلیے  سدّ ذرائع  کا اصول اپنانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مبادا اس کی وجہ سے زندگی کے دیگر امور پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں، چنانچہ اہل علم کہتے ہیں کہ : انگوروں کی پیداوار مطلق طور پر حرام کہنا صحیح نہیں ہے، حالانکہ انگوروں کی پیداوار سے یہ امر یقینی ہے کہ اسے شراب کیلیے بھی استعمال کیا جاتا ہو گا؛ کیونکہ یہ دور کے خدشات  میں سے براہِ راست انگوروں کی کاشت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، نیز اس طرح کے امور میں سد ذرائع کا اصول لاگو کرنے پر وہ لوگ بھی متاثر ہوں گے جو انگوروں کو طبعی انداز سے کھاتے ہیں ، چنانچہ ایسی صورتوں میں سدّ ذرائع کا اصول لاگو نہیں کیا جائے گا۔

امام قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس چیز کی عدم ممانعت پر امت کا اجماع ہو  کہ اس ذریعے کو بند کرنا اور ختم کرنا ممکن نہیں ہے ، اس کی متعدد مثالیں ہیں: انگوروں کی کاشت کاری شراب کشید کرنے کا ذریعہ ہے، لیکن کسی نے بھی انگوروں کی کاشت کاری کو شراب کشید کرنے کے خدشے کی بنا پر منع قرار نہیں دیا” انتہی
“الفروق” (2/42)

یہی معاملہ یہاں پر ہے کہ سفری ذرائع  کی ڈرائیونگ  کو صرف اس لیے حرام قرار دینا کہ “ممکن” ہے کہ  “کوئی” مسافر اپنے ساتھ حرام چیزیں -شراب  اور دیگر حرام چیزیں- لا سکتا ہے اس سے لوگوں کو امورِ زندگی کیلیے بہت زیادہ تنگی ہو گی، اس کی وجہ سے لوگوں کے جائز کاموں میں رکاوٹیں کھڑی ہوں گی، جو کہ بے دلیل اور بے فائدہ بھی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ غیر مسلم ممالک میں ریل گاڑی کی ڈرائیونگ کر سکتے ہیں، لیکن اگر معاہدے کے دوران حرام چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا معاہدہ بھی شامل ہو تو اس وقت  یہ معاہدہ حرام کام پر مشتمل ہو نے کی وجہ سے حرام ہو جائے گا۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android