سوال: میں ، میری والدہ اور بہن کے پاس رہنے کیلیے کوئی جگہ نہیں ہے، ہم اس وقت ایک سہیلی کے گھر میں رہ رہے ہیں، ہمیں ان کے گھر میں رہتے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے ، ہمارے پاس جانے کیلیے کوئی جگہ بھی نہیں ہے، میں اور میری بہن یونیورسٹی میں نرسنگ کا کورس کر رہے ہیں، تعلیم کے تمام اخراجات حکومت برداشت کر تی ہے ہم جز وقتی ملازمت بھی کرتی ہیں، لیکن ابھی اس حالت میں نہیں ہیں کہ مکان حاصل کر سکیں، میری والدہ بیمار رہتی ہیں وہ کام بھی نہیں کر سکتیں، اس وقت ہمارا کوئی سہارا بھی نہیں ہے جو مکان کے حصول میں ہمارا سہارا بن سکے اور مکان کرایہ پر لینے کیلیے مطلوبہ رقم فراہم کر دے، تو کیا ہمارے لیے طلبا کو دیا جانے والا قرضہ لینا جائز ہے؟ کہ ہم اسے اپنے دیگر اخراجات اور مکان کے کرایے کیلیے استعمال کر لیں، واضح رہے کہ یہ قرض سودی ہوتا ہے۔
مکان کرایہ پر لینے کیلیے سودی قرضہ لینا
سوال: 239111
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور آپ کو حلال مال کے ذریعے غنی کر دے، اور سود کی تھوڑی یا زیادہ ہر طرح کی مقدار سے محفوظ فرما لے۔
دوم:
سود کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس کے بارے میں دی جانے والی وعید کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، چنانچہ سود کی جتنی بھی صورتیں ہیں سب حرام ہیں۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی : (13/385) میں ہے کہ:
ایک سادہ سا مکان بنانے کیلیے بینکوں سے سود پر قرض لینے کا کیا حکم ہے؟
اس کے جواب میں کمیٹی نے فتوی دیا کہ:
“بینکوں یا افراد کسی سے بھی سودی قرضہ لینا حرام ہے، چاہے یہ قرض مکان بنانے کیلیے ہو یا اخراجات کیلیے یا کھانے پینے ، پہننے اور علاج معالج کیلیے ہو یا پھر تجارت میں لگا کر اس کا نفع کمانے کیلیے ہو یا کسی اور مقصد کیلیے؛ کیونکہ سودی لین دین سے ممانعت کی آیات عام ہیں، اسی طرح سود کی حرمت بیان کرنے والی احادیث بھی عام ہیں ، اسی طرح ایسے بینکوں یا اداروں میں رقوم رکھنا بھی حرام ہے جو سودی لین دین کرتے ہیں” ا نتہی
چنانچہ اس واضح حکم سے انتہائی شدید نوعیت کی صورتحال کو مستثنی کیا جائے گا جیسےانسان کو کھانے پینے پہننے اور رہنے کیلیے صرف سودی قرض ہی مہیا ہو، جیسے کہ پہلے سوال نمبر: (123563) اور (94823) میں گزر چکا ہے۔
رہائش کا مسئلہ مکان کی خریداری کی بجائے کرایہ پر لینے سے حل ہو سکتا ہے، اس لیے آپ ایسا جائز کام تلاش کرنے کی کوشش کریں جس سے آپ کرائے پر مکان حاصل کر سکیں۔
اگر آپ کو ایسی ملازمت بھی نہ ملے تو پھر آپ رہائش کی ضرورت پوری کرنے کیلیے مناسب سا مکان سودی قرضہ لے کرایہ پر لے لیں، لیکن اس گنجائش کو مزید وسعت نہیں دینی کیونکہ ضرورت کے مطابق ہی ممنوع کام کی اجازت ہوتی ہے اس میں وسعت اختیار کرنا جائز نہیں ہوتا۔
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس بات پر اہل علم کے مابین کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ضرورت کے تقاضوں کے مطابق احکامات عام اوقات سے الگ ہوتے ہیں۔
چنانچہ کسی بھی مسلمان کو کسی بھی چیز کی حقیقی ضرورت پڑ جائے تو اس کافی مہلت دی جاتی ہے۔
اللہ تعالی نے حالتِ ضرورت کو پانچ مقامات پر مستثنی قرار دیا ہے، ان پانچوں مقامات میں اللہ تعالی نے 4 کبیرہ ترین حرام کاموں کا ذکر کیا اور پھر ان میں سے حالتِ ضرورت کو مستثنی قرار دیا، وہ چار کبیرہ ترین حرام کام یہ ہے: مردار کھانا، خون پینا، خنزیر کھانا، اور غیر اللہ کے نام پر ذبح شدہ جانور کھانا، لیکن حالتِ ضرورت میں انہیں استعمال کی اجازت دی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے سورہ انعام میں فرمایا:
(قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ )
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل نا پاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔ [145]
اسی سورت کے ایک اور مقام پر فرمایا:
(وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ )
ترجمہ: اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑ جائے تو حلال ہے ۔[119]
اور سورہ النحل میں فرمایا:
(إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ)
ترجمہ: اس نے تم پر صرف مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ چیزیں حرام کی ہیں جن پر غیر اللہ کا نام لیا جائے جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ سرکش ہو اور نہ حد سے گزرنے والا ہو،تو پس یقیناً اللہ بخشنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے ۔[115]
سورۃ البقرہ میں فرمایا:
(إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ)
ترجمہ: تم پر مردہ اور خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو،تو اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ [173]
اور سورہ مائدہ میں فرمایا:
(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ)
ترجمہ: تم پر (یہ چیزیں) حرام کی گئی ہیں مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام سے مشہور کر دی جائے۔ نیز وہ جانور جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مرگیا ہو نیز وہ جانور جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، الّا یہ کہ (ابھی وہ زندہ ہو اور) تم اسے ذبح کر لو۔ نیز وہ جانور بھی جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز ہر وہ چیز بھی حرام ہے جس میں فال کے تیروں سے تم اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے پوری طرح مایوس ہو گئے ہیں۔ لہذا ان سے مت ڈرو، صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک کے مارے (ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کو کھانے پر) مجبور ہو جائے بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ یقیناً بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ” انتہی
“أضواء البيان” (7/356)
مزید کیلیے آپ دیکھیں: “القواعد النورانية” از شیخ الاسلام ابن تیمیہ : (205) ، اس طرح انہیں کی کتاب: “العقود” (37) اور “مدارج السالكین” از: ابن قیم (1/376-377)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب