یہ کب طے ہو گا کہ بندہ میقات سے تجاوز کر گیا ہے؟ نیز تجاوز کرنے کی مسافت کتنی ہو گی؟ کیا اگر میں مسجد میقات سے 50 یا 80 میٹر کے قریب تجاوز کر جاؤں اور پھر وہاں جا کر عمرے کی نیت کروں تو کیا مجھے حدود میقات سے متجاوز سمجھا جائے گا یا نہیں؟ ہوا یوں کہ میں ریاض سے مکہ کی جانب عمرے کیلیے روانہ ہوا اور میقات سے قبل غسل کر لیا، میری دلی نیت یہی تھی کہ میں عمرہ کرنے جا رہا ہوں، میں ریاض سے چلا ہی عمرے کی نیت سے تھا، لیکن میں نے “اللهم لبيك عمرة” کے الفاظ مسجد میقات کے مینار کو عبور کر کے تقریباً 50 میٹر کے بعد کہے، تو کیا مجھ پر کچھ لازم آتا ہے؟
مسجد میقات سے تجاوز کر جانے کے بعد احرام کی نیت، اورکیا اس پر کچھ ہے؟
سوال: 240422
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
حج یا عمرے کا ارادہ رکھنے والے کیلیے میقات کو احرام کے بغیر عبور کرنا جائز نہیں ہے، یہاں احرام سے مراد حج یا عمرے میں داخل ہونے کی نیت ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حج یا عمرے کی نیت سے مراد حج یا عمرے میں داخل ہونے کی نیت ہے، محض قلبی رجحان اور ارادہ نہیں کہ اس نے عمرہ کرنا ہے یا حج کرنا ہے؛ ان دونوں میں فرق ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ اس سال حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو کیا ہم کہیں گے کہ اس قلبی رجحان کو نیت شمار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اس نے احرام باندھ لیا ہے؟
اس کا جواب یہی ہے کہ: نہیں وہ محرم نہیں ہے؛ کیونکہ اس نے حج میں داخل ہونے کی نیت نہیں کی۔
اسی طرح ایک اور مثال سمجھیں کہ ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ ہم نماز عشا پڑھ لیں، تو کیا ہم اپنے اس ارادے سے نماز میں داخل ہو جائیں گے؟ اور ہم پر وہ تمام پابندیاں لگ جائیں گی جو ایک نمازی پر لاگو ہوتی ہیں؟
اس کا جواب بھی یہی ہے کہ: نہیں، اس لیے واضح ہوا کہ کسی کام کے کرنے کا محض ارادہ مؤثر نہیں ہوتا ، ہاں وہ کام شروع کرنے کی نیت مؤثر ہوتی ہے، نیز حج یا عمرے میں داخل ہونے کی نیت کو احرام باندھنے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ اس وقت حج یا عمرہ شروع کرنا چاہتا ہے، لہذا اب اس پر احرام سے پہلے جو چیزیں جائز تھیں وہ حرام ہو گئی ہیں، مثلاً: اس کیلیے بیہودہ باتیں کرنا ، خوشبو لگانا، بال منڈوانا، اور شکار وغیرہ کی پابندیاں لاگو ہو جائیں گی۔۔۔
حج یا عمرے میں داخل ہونے کی نیت کرنا حج یا عمرے کیلیے شرط ہے، لہذا نیت کے بغیر کوئی چارہ نہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص حج یا عمرے میں داخل ہونے کی نیت کے بغیر تلبیہ کے الفاظ کہتا ہے تو وہ صرف تلبیہ کے الفاظ کہنے سے محرم نہیں بن جائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص احرام کی دو چادریں حج یا عمرے میں داخل ہونے کی نیت کے بغیر زیب تن کر لیتا ہے تو اس سے بھی وہ محرم نہیں ہو گا۔ ” ختم شد
” الشرح الممتع ” (7/60-69)
لہذ كوئى شخص عمره كى نىت كرتا ہے ىا تلبیہ كہتا ہے لىكن عمرے میں داخل ہونے کی نیت نہیں كرتا تو اس سے بھی وہ محرم نہیں ہو گا۔
دوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر میقات کیلیے ان کا حدود اربعہ متعین کیا ہو کہ جو بھی ان حدود سے تجاوز کر گیا تو اس کیلیے وہاں سے واپس میقات لوٹنا ضروری ہو گا، بصورت دیگر اس پر دم واجب ہو گا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مشہور و معروف جگہوں کے نام بتلا دئیے کہ ان جگہوں سے احرام باندھنا ہے۔
جیسے کہ صحیح بخاری: (1530) اور مسلم: (1181) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مدینہ کیلیے ذو الحلىفہ، اہل شام کیلیے جحفہ، اہل نجد کیلیے قرن المنازل اور اہل یمن کیلیے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔۔۔) الحدیث
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میقات کی جگہوں کے یہ نام ، ان جگہوں کے مکینوں اور آس پاس کے لوگوں کیلیے مشہور و معروف ہیں ، البتہ اتنا ہے کہ یہاں رہنے والوں کو ان جگہوں کی حدود کے متعلق دوسروں سے زیادہ علم ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جگہوں کی حرم سے مسافت میل یا مرحلوں[اہل عرب کے ہاں مخصوص مسافت]کے ذریعے بیان نہیں فرمائی، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے کسی کا حدود اربعہ بیان کیا ، نہ ہی کوئی علامت وغیرہ بتلائی بلکہ صرف ان کا نام ذکر فرما دیا۔
جب یہ بات معلوم ہو گئی تو اس کے بعد اہل علم کے ہاں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ احادیث میں مذکور قرن المنازل جسے اضافت کے بغیر قرن بھی کہا جاتا ہے یہ اہل نجد اور طائف وغیرہ کی جانب سے آنے والے لوگوں کی میقات ہے۔۔۔
اور حتمی طور پر حق بات یہ ہے کہ قرن المنازل پوری وادی کا نام ہے، اس میں وادی کا نچلا، بالائی اور درمیانی سارا علاقہ مراد ہے، اور اس سارے علاقے میں مذکورہ بستی اور اس کے آس پاس کا علاقہ بھی شامل ہے۔” ختم شد
” فتاوى ورسائل الشيخ محمد بن إبراهيم ” (5/209)
اہل علم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ جتنے بھی میقات ہیں سب کے سب بڑی بڑی وادیاں ہیں۔
شیخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“احرام باندھنے کیلیے جتنے بھی میقات ہیں یہ سب بڑی بڑی وادیاں ہیں” ختم شد
” تيسير العلام شرح عمدة الأحكام ” ( ص/362)
احرام کی نیت کرنے والا شخص میقات کی حدود میں کہیں بھی نیت کر سکتا ہے، میقات کی اس جانب جا کر بھی نیت کر سکتا ہے جو طرف مکہ کے قریب ہے۔
ابن قاسم رحمہ اللہ الروض المربع (3/529) پر اپنے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ:
“اگر احرام میقات کی مکہ کے قریب ترین والی طرف سے باندھتا ہے تو جائز ہے کہ اس جگہ پر اس کا مخصوص نام صادق آتا ہے ، نیز اصل اعتبار میقات کی جگہ کا ہوگا” ختم شد
مندرجہ بالا تفصیلات کی بنا پر:
اصل اعتبار مسجد کا نہیں ہے جو ان جگہوں میں بنائی گئی ہیں، بلکہ اعتبار اس جگہ کا ہے جہاں تک اس میقات کا نام صادق آتا ہے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مسجد سے 50 میٹر کی مسافت طے کر جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؛ نہ ہی ایسے شخص کو یہ کہا جائے گا کہ وہ میقات عبور کر گیا ہے؛ کیونکہ وادی مسجد کے بعد بھی اس سے زیادہ دور تک پھیلی ہوئی ہے۔
لہذا : اگر آپ نے عمرے کی نیت سے احرام باندھا اور مذکورہ مسافت کے لگ بھگ مسافت طے کرنے کے بعد عمرے میں داخل ہو گئے تو اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج والی بات نہیں ہے، آپ کا عمرہ صحیح ہے اور ایسی کوئی بات محسوس نہیں ہوتی کہ آپ پر کچھ لازم ہو گا
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب