میں جاننا چاہتی ہوں کہ وضو کے پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکنے والے اور نہ روکنے والے میک اپ میں فرق کیسے کیا جائے؟ میں جانتی ہوں کہ ایسی چیز جس کی پرت ہوتی ہے جیسے کہ نیل پالش وغیرہ تو ان کے ہوتے ہوئے وضو نہیں ہو سکتا، لیکن مارکیٹ میں ایسی کاسمیٹکس موجود ہیں جن کہ جلد پر تہہ نہیں بنتی ، لیکن ان میں بہت زیادہ چکنائی پائی جاتی ہے۔ جیسے لپ اسٹک اور بیس کریم۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ وضو کے پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکتی ہیں؟ اسی طرح کیا ہر واٹر پروف چیز بھی پانی کو جلد تک پہنچنے نہیں دیتی؟ ایسی چیزیں صرف پانی کے ساتھ مشکل سے اترتی ہیں، تو کچھ فورمز پر میں نے پڑھا ہے کہ یہ چیزیں وضو کے پانی کو جلد تک نہیں پہنچنے دیتیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ میک اپ کے لیے استعمال ہونے والے مختلف پاؤڈرز مثلاً: گالوں اور آنکھوں (eyeshadow)کے لیے استعمال ہونے والے مختلف پاؤڈر بھی پانی جلد تک نہیں پہنچنے دیتے؟ کوئی ایسا عملی طریقہ ہے جس سے میں دونوں اقسام کے میک اپ میں فرق کر سکوں؟
کسی چیز کے بارے میں یہ کب کہا جائے گا کہ یہ چیز وضو کا پانی جلد تک نہیں پہنچنے دیتی؟
سوال: 240518
جواب کا خلاصہ
جلد تک پانی کی رسائی میں رکاوٹ بننے والی چیزیں وہ ہوتی ہیں جن کی جلد پر تہہ بنے، اور واٹر پروف ہوں، یہ چیزیں پانی سے حل نہیں ہوتیں اور پانی لگنے سے زائل بھی نہیں ہوتیں۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
وضو کرتے وقت تمام اعضائے وضو پر پانی بہانا لازم ہے، اس کی دلیل احادیث نبویہ میں موجود ہے کہ: سیدنا خالد بن معدان بیان کرتے ہیں کہ: "نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چند صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے پاؤں میں درہم کے برابر جگہ خشک ہونے کی وجہ سے چمک رہی ہے، اس تک پانی نہیں پہنچا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دوبارہ وضو اور نماز دہرانے کا حکم دیا تھا۔" اس حدیث کو ابو داود:(175) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے " إرواء الغليل " (1 / 127) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
چاروں فقہی مذاہب کا یہ متفقہ موقف ہے کہ وضو کے صحیح ہونے کے لیے ہر اس چیز کو زائل کرنا ضروری ہے جو اعضا تک پانی نہ پہنچنے دے۔
"الموسوعة الفقهية" (43/329)
دوم:
جلد تک پانی کی رسائی میں رکاوٹ ڈالنے والی چیزوں کو متعین کرنے کا معاملہ ان چیزوں کے عمل سے ہے، [یعنی انہیں لگا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ کون سی چیز پانی پہنچنے دیتی ہے اور کون سی چیز نہیں پہنچنے دیتی۔ مترجم] اہل علم نے اس حوالے سے کافی غور خوض کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایسی چیزوں کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: ایسی چیزیں جن کا وجود ہے، یعنی ان چیزوں کی تہہ بن جاتی ہے ، چنانچہ جب انہیں جسم پر لگایا جائے تو جسم پر بذات خود چپکی رہتی ہیں اور اسے چھیل کر یا رگڑ کر اتارا جا سکتا ہے، مثلاً: مختلف قسم کی ویکس (Wax) اور نیل پالش وغیرہ
ایسی چیزیں جن کا وجود ہے:
-اگر تو واٹر پروف نہیں ہیں جیسے کہ میک اپ کے لیے عمومی طور پر استعمال ہونے والے پاؤڈر وغیرہ تو ان کے لگے ہونے کی صورت میں وضو کرنے والی خاتون کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنی جلد کو اچھی طرح رگڑ کر دھوئے تا آں کہ جلد تک پانی پہنچنے کا غالب گمان ہونے لگے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وضو اور غسل میں پورے جسم تک پانی پہنچانے کے لیے جسم کو ملنا اس وقت واجب ہے جب علم ہو کہ ملے بغیر وضو یا غسل کا پانی پورے جسم تک نہیں پہنچ پائے گا، مثلاً: گھنے بالوں کی صورت میں ملنا واجب ہے، لیکن اگر پانی ملے بغیر جسم کے حصوں تک پہنچ سکتا ہو تو پھر ملنا مستحب ہو گا۔۔۔
اور ویسے بھی ملنے سے صفائی اچھی طرح ہوتی ہے، اور پورے جسم تک پانی پہنچنے کا یقین بھی ہو جاتا ہے اس لیے وضو اور غسل میں ہاتھ سے ملنا شرعی عمل ہے، بالکل اسی طرح جیسے وضو کے دوران انگلیوں کا خلال کرنا شرعی عمل ہے۔" ختم شد
" شرح عمدة الفقه " (1 / 367 – 368)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وضو اور غسل میں واجب عمل: جس عضو کو پاک کرنا مقصود ہے اس پورے عضو پر پانی بہائیں، تاہم ملنا واجب نہیں ہے، لیکن جب ضرورت ہو تو ملنا مؤکد ہو جائے گا، مثلاً: پانی بہت زیادہ ٹھنڈا ہو، یا عضو پر چکناہٹ ہو یا کوئی بھی ایسی چیز ہو جو پانی جلد تک پہنچنے کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہو تو پھر ملنے کی تاکید کی جائے گی؛ تا کہ انسان کو متعلقہ پورے عضو تک پانی پہنچنے کا یقین ہو جائے۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " (3 / 94)
-اور اگر یہ چیزیں واٹر پروف ہیں، کچھ میک اپ ایسے ہی ہیں تو ایسی صورت میں وضو کرنے سے پہلے انہیں زائل کرنا واجب ہے تا کہ دوران وضو جلد تک پانی یقینی طور پر پہنچ سکے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: اگر پاؤں کی پھٹن میں چربی، موم، آٹا، یا ان میں مہندی لگائی اور ان میں سے کوئی چیز پھٹن میں پھنس گئی تو وضو کا پانی جلد تک پہنچانے کے لیے اسے زائل کرنا لازم ہے۔" ختم شد
" المجموع " (1 / 426)
دوسری قسم: یعنی ایسی چیزیں جن کا وجود نہیں ہے، یعنی جسم پر لگنے کے بعد ان کی پرت اور تہہ نہیں بنتی، بلکہ جسم پر لگنے سے یا تو ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے، یا جلد اسے جذب کر لیتی ہے اور جلد پر اس کے اثرات باقی نہیں رہتے، مثال کے طور پر صرف اس کی رنگت وغیرہ ہی جلد پر نظر آتی ہے۔
جیسے کہ کریمیں، تیل، سرمہ، اور مہندی وغیرہ تو اس کے جسم پر لگے ہونے کی وجہ سے وضو باطل نہیں ہو گا، تاہم اگر ان چیزوں میں چکناہٹ ہو انسان کو چاہیے کہ اپنی جلد اچھی طرح ملے تا کہ جلد تک پانی پہنچنے کا یقین ہو جائے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر تیل کا جسم پر وجود نہیں ہے، بلکہ اعضائے وضو پر تیل کے صرف اثرات ہیں تو اس سے وضو پر کوئی منفی اثر نہیں ہو گا، تاہم ایسی صورت میں انسان اپنا ہاتھ متعلقہ عضو پر اچھی طرح ملے؛ کیونکہ عام طور پر پانی اور تیل الگ الگ رہتے ہیں، تو ایسے ممکن ہے کہ پورے عضو پر پانی نہ پہنچ پائے۔" ختم شد
ماخوذ از: مجموع فتاوی ابن عثیمین: (11/ 147)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب