کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو میری طرف سے بیرون ملک سے خریدی گئی اشیا کی قیمت ادا کرتی ہیں، پھر میں 6 فیصد کمیشن کے ساتھ ان کمپنیوں کو ایک یا دو ماہ بعد ادائیگی کر دیتا ہوں، یہ کمیشن فیسوں اور اخراجات کی مد میں ہوتا ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟ عام طور پر کمپنی 5٪ کمیشن لیتی ہے، لیکن اس بار 1٪ زیادہ کمیشن لیا کیونکہ میں نے نقدی ادا نہیں کیا بلکہ دو ماہ بعد ادائیگی کی تھی۔
کچھ کمپنیاں مخصوص تناسب کے عوض صارف کی خریدی گئی چیزوں کی قیمت ادا کرتی ہیں۔
سوال: 244747
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر معاملہ ایسے ہی ہے جس طرح آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے کہ آپ کمپنی کو رقم نہیں دیتے کہ کمپنی آپ کی طرف سے ادائیگی کرے بلکہ کمپنی پہلے اپنی طرف سے ادائیگی کر دیتی ہے اور پھر جو رقم کمپنی نے ادا کی ہے آپ سے وصول کر لیتی ہے اور ساتھ میں مذکورہ تناسب بھی وصول کرتی ہے، تو یہ سودی اور حرام قرض ہے، اسے اخراجات کا نام دے کر جواز نہیں دیا جا سکتا، اس بات سے بھی حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کہ اس تناسب کی مقدار 5٪ ہو یا کم و بیش ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“قرض کی ہر وہ قسم جس میں اضافی ادائیگی کی شرط لگائی گئی تو وہ حرام ہے، اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اسی طرح ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سب کا اجماع ہے کہ اگر قرضہ دینے والا مقروض شخص پر اضافی ادائیگی کی شرط لگائے یا تحفہ دینے کی شرط لگائے اور قرضہ دینے والا اسی شرط پر قرضہ دے تو یہ اضافی رقم لینا سود ہو گا۔
نیز ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی بھی ایسے قرضے سے منع کیا جس سے نفع حاصل ہو” ختم شد
“المغنی” (6/ 436)
واللہ اعلم
ماخذ:
اسلام سوال و جواب