اگر كتا ہم ميں سے كسى كا كپڑا كا جلد چاٹ لے تو ہميں كيا كرنا ہو گا ؟
مجھے يہ تو علم ہے كہ اس جگہ كو مٹى يا كيچڑ كے ساتھ مل كر دھونا چاہيے، ليكن اگر كسى شخص نے قيمتى لباس زيب تن كر ركھا ہو اور اگر وہ ايسا كرے تو اس كا لباس اور زيادہ گندہ ہو جائيگا، تو كيا اگر وہ اسے لانڈرى سے ڈرائى كلين كرا لے تو كيا كافى ہوگا ؟
اگر مسلمان شخص كا كپڑا اور لباس كتا چاٹ جائے تو كيا حكم ہے ؟
سوال: 2453
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اہل علم كہتے ہيں كہ كتے كا لعاب اور اس كا جھوٹا نجس ہے، اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ كپڑے اور برتن وغيرہ ميں منہ ڈالے تو اسے دھونا ضروى اور واجب ہے، اگر ايسا ہو جائے تو اس كى تطہير اور پاكى كے ليے سنت نبويہ ميں مسلمان شخص كے ليے ايسا كرنا ثابت ہے.
امام بخارى اور مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كسى كے برتن ميں كتا منہ ڈال دے تو اس ميں جو كچھ ہو اسے بہا ديا جائے اور پھر اس برتن كو سات بار دھوئے "
اور مسلم كى روايت ميں يہ الفاظ زيادہ ہيں:
" ان ميں پہلى بار مٹى سے دھوئے "
صحيح بخارى حاشيۃ سندى ( 1 / 44 ) صحيح مسلم ( 1 / 234 ).
" ولغ " كا معنى يہ ہے كہ جب كتا پانى وغيرہ ميں اپنى زبان ڈال دے چاہے كتے نے اسے پيا ہو يا نہ پيا ہو، اور چاٹنا بھى اسى ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ حديث برتنوں كے متعلق نص ہے، اور علماء كرام نے برتنوں وغيرہ ميں كوئى فرق نہيں كيا.
عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں: حديث ميں برتنوں كا ذكر اغلبيت كى بنا پر كيا گيا ہے.
اس ليے برتن يا كپڑے كو سات بار دھونا جن ميں ايك بار مٹى سے دھونا واجب ہے، ابن عباس اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم كا قول يہى ہے، ابن سيرين اور طاؤوس، اور ازاعى، اور شافعى، احمد، ابو ثور وغيرہ نے بھى اسى قول كو ليا ہے.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 586 ) المغنى ابن قدامہ ( 1 / 46 ) محلى ابن حزم ( 1 / 146 ) نيل الاوطار للشوكانى ( 1 / 74 ).
آخرى بار مٹى سے دھونا لازم نہيں، اس ليے سوال ميں كيا گيا اعتراض پيدا ہى نہيں ہوتا كہ اسيا كرنے سے لباس گندا ہو جائيگا، كيونكہ مٹى كے ساتھ دھونے كے بعد اسے كئى بار پانى سے دھويا جائيگا، اور اس كے خشك ہونے اوراسرتى كرنے كے بعد وہ پہلے سے بھى زيادہ صاف ستھرا ہو گا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد