میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا نیڈو کا خشک دودھ استعمال کرنا حلال ہے؟ واضح رہے کہ اس دودھ کی تیاری میں سویا بین سے تیار شدہ (Lecithin) بھی شامل ہوتا ہے، میں نے اس مادے کے مآخذ کے بارے میں تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ مادہ غذائی مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے ، جس کا مقصد یہ ہے کہ چکنائی کو پانی سے الگ نہ ہونے دے، یہ کئی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے جن میں سے ایک سویا بین بھی ہے، اور استعمال کرنے والی کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس مادے کا ماخذ ذکر کرے ، چنانچہ جس وقت اس مادے کا نام صرف (Lecithin) لکھا ہوا ہو اور اس کے بعد تحدید نہ ہو کہ کہاں سے یہ حاصل کیا گیا ہے تو اس کے حلال ہونے میں شک پیدا ہو جاتا ہے، لیکن جب یہ لکھا ہو کہ یہ سویا بین سے حاصل شدہ ہے تو پھر یہ حلال ہوتا ہے۔
ایسے دودھ کا حکم جس میں (Lecithin) مادہ شامل ہے۔
سوال: 246660
جواب کا خلاصہ
خلاصہ یہ ہوا کہ: مذکورہ دودھ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات کی ضرورت ہے۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جس کمپنی کے خشک دودھ کے متعلق پوچھا گیا ہے اسے یا اسی طرح کی دیگر مصنوعات کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، اور جس کسی چیز کی ماہیت کے بارے میں ہمیں علم نہ ہو اس کی تفصیلات جاننا ہمارے لیے واجب اور ضروری بھی نہیں ہے۔
اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ استعمال کی چیز میں ایک شے ایسی ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہے ، تو پھر ایسی صورت میں ہمارے لیے اس کا کوئی حکم بھی نہیں ہے؛ کیونکہ نا معلوم چیز کا حکم معدوم چیز والا ہوتا ہے، اگر کھانے کی چیزوں کے متعلق تفصیلات جاننا ضروری ہوتا تو اللہ تعالی کفار کے کھانے کے متعلق تفصیلات جاننے کو ہم پر شرط قرار دیتے، تو چونکہ ہمیں کفار کے کھانے کی تفصیلات جاننے کا حکم نہیں دیا گیا حالانکہ کسی دوسرے کے کھانے کی حاجت کا عام ہونا مخفی نہیں ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ تفصیلات جاننا مطلوب نہیں ہے، بلکہ جائز بھی نہیں ہے۔
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات اور فتاوی سے سوال پوچھا گیا:
"پنیر کی تیاری میں پنیر مایہ [جما ہوا دودھ ، جو شیر خوار بچھڑوں کے چوتھے معدے میں پایا جاتا ہے اور پنیر بنانے کے کام آتا ہے] استعمال ہوتا ہے تو کیا ایسے پنیر حلال ہیں؟ کیونکہ یہ پنیر مایہ ایسے بچھڑوں اور گائے کے معدے سے نکالا جاتا ہے جو کہ شرعی طور پر ذبح نہیں کئے جاتے"
اس پر کمیٹی نے جواب دیا:
"ایسے پنیر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی آپ پر اس پنیر مایہ کے ماخذ کے بارے میں جاننا ضروری ہے، کیونکہ مسلمان صحابہ کرام کے عہد سے کفار کے بنائے ہوئے پنیر کھاتے آئے ہیں، صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کے پنیر مایہ کے متعلق نہیں پوچھا" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 22 / 263 – 264)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے ہمارے لیے اس سر زمین پر جو کچھ بھی پیدا کیا ہے وہ اصل میں حلال ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا)
ترجمہ: اللہ ہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لیے [حلال]پیدا کیا ہے۔[البقرہ:29]
لہذا اگر کوئی شخص کسی چیز کے حرام ہونے کے متعلق دعوی کرتا ہے اس کے نجس ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے تو دلیل وہی دے گا۔
اور اگر ہم ہر ایک کی بات ماننے لگ جائیں اور ہر کہی ہوئی بات کو سچ سمجھنے لگیں تو اس طرز عمل کی کوئی دلیل نہیں ہے۔" انتہی
" لقاء الباب المفتوح " (31/20)
دوم:
اس وقت بازار میں موجود دودھ کی انواع و اقسام اور ان کے اجزائے ترکیبی کے متعلق -جن کا ماخذ حرام ، یا مشکوک یا غیر یقینی وغیرہ ہو سکتا ہے-شکوک و شبہات پھیلانے والوں کی بات پر توجہ کرنا مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ اگر ان کے اجزائے ترکیبی نباتاتی ہیں تو اس دودھ کے حلال ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔
اور اگر اس کا ماخذ نباتاتی نہیں بلکہ حیوانی ہے تو ایسی صورت میں وہ کسی حلال اور شرعی طریقے سے ذبح شدہ جانور سے حاصل شدہ ہو گا یا پھر کسی مردار سے۔
تو اگر وہ کسی حلال جانور سے حاصل شدہ ہے ، اور ایسے ملک سے آیا ہے جن کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے تو اس کی جزوِ ترکیبی بھی حلال ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے۔
اور اگر وہ کسی حرام جانور سے حاصل شدہ ہے یا ایسے ملک سے آیا ہے جن کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال نہیں ہے، تو تب بھی ایسے جزوِ ترکیبی کی حامل چیز حلال ہو گی؛ کیونکہ اس کی بھی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:
– یا تو وہ شے کیمیائی مواد کے شامل ہونے کی وجہ سے اپنی اصلی حالت سے کسی نئی اور الگ حالت میں مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔
– یا پھر وہ جزو ترکیبی اپنی اصلیت مٹا چکا ہو، اور اس کا اس دودھ یا دیگر کسی اور چیز میں کوئی اثر ہی باقی نہ رہے۔
تو ہم پہلے ہی اپنے جوابات میں یہ بتلا چکے ہیں کہ (Lecithin) یا کولیسٹرول یا اسی طرح کی دیگر اشیا جن کا ماخذ نجس ہوتا ہے انہیں غذا یا دوا کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کی مقدار بہت ہی معمولی ہو اور اسے دیگر طاہر اور پاک چیزوں میں استعمال کیا گیا ہو۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: اور اسی طرح (22013) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات