كيا ميں صحيح سمجھا ہوں كہ شرم و حياء كا تقاضہ يہى ہے كہ مردوں كے ليے پيشاب كرتے وقت زمين كے قريب ہونا اور جھكنا ضرورى ہے ؟
ليكن ميرا سوال يہ ہے كہ مردوں كے بيڈروم ميں پيشاب كے ليے پاٹ كا استعمال نہ كرنے ميں زيادہ شرم و حياء پائى جاتى ہے، جبكہ ان ميں سے كوئى ايك شخص مسلمان ہو اور اس كا بيڈروم ليٹرين كے قريب ہو ؟
ميں جانتا ہوں كہ مسلمان عورت كے ليے شرم و حياء كے اداب اور اصول و قواعد ايك يورپى عورت كے مقابلہ ميں بہت زيادہ اور شديد تحفظ ركھتے ہيں، ميں اسى بنا پر مسلمان عورت كا بہت زيادہ احترام كرتا ہوں، ميں مسلمانوں پر حملہ نہيں كر رہا، اگرچہ ميرے سوال سے ظاہر ہوتا ہے، ليكن صرف اتنا ہے كہ ميں ان كے سلوكيات اور آداب كے متعلق كافى معلومات نہيں ركھتا، جواب دينے پر آپ كا شكريہ، اللہ تعالى آپ كو ہر قسم كى برائى سے محفوظ ركھے اور آپ كو صحت و عافيت سے نوازے.
مسلمانوں كے ہاں قضائے حاجت كے آداب
سوال: 2532
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سب سے پہلے تو آپ كا شكريہ ادا كرنا ضرورى ہے كہ آپ مسلمانوں كے احساسات كو سمجھتے اور اس كا شعور حاصل كرنے كى كوشش كرتے ہيں، اور انہيں تكليف دينے والى اشياء معلوم كرنے كى كوشش ميں ہيں تا كہ انہيں اذيت و تكليف محسوس نہ ہو، ہميں بہت خوشى ہو رہى ہے كہ آپ نے جو كچھ دريافت كيا ہے اس كا جواب تفصيل سے ديں، بلكہ اس سے بھى زيادہ معلومات فراہم كريں، ہو سكتا ہے اس كے ذريعہ آپ پر وہ كچھ واضح ہو جائے جو آپ كو خير عظيم كى طرف لے جائے.
يہ مبارك شريعت اسلاميہ كى عظمت ميں ہى شامل ہے كہ شريعت اسلاميہ نے كوئى ايسى چيز نہيں چھوڑى جس ميں قليل سى بھى خير ہو اور نہ ہى زيادہ خير والى چيز چھوڑى ہى مگر اس كا حكم ديا ہے، اور اس پر دلالت كى ہے، اور اگر كسى چيز ميں قليل سا بھى شر اور برائى ہے يا كثير شر ہے تو اس سے ڈرايا اور منع كيا ہے.
تو اس طرح شريعت اسلاميہ ہر لحاظ سے كامل و اكمل اور احسن ہے جس نے غير مسلموں كو دہشت زدہ كر ديا ہے، اور اس دين پر تعجب كرنے لگے ہيں، حتى كہ مشركوں ميں سے ايك شخص نے سلمان فارسى رضى اللہ تعالى عنہ سے كہا:
تمہارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم تو تمہيں ہر چيز كى تعليم ديتے ہيں حتى كہ بيت الخلاء جانے كا طريقہ بھى، تو سلمان فارسى رضى اللہ تعالى عنہ فرمانے لگے: جى ہاں بالكل صحيح ہے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں قضائے حاجت كرتے وقت قبلہ رخ ہونے اور اس كى طرف پشت كرنے سے منع فرمايا ہے….. " الحديث.
اسے ترمذى نے حديث نمبر ( 16 ) ميں روايت كيا ہے، اور اسے حسن صحيح كہا ہے، اور يہ صحيح مسلم وغيرہ ميں بھى ہے.
قضائے حاجت كے متعلق شريعت اسلاميہ ميں كئى ايك آداب اور احكام بيان ہوئے جن ميں سے چند ايك ذيل ميں پيش كيے جاتے ہيں:
1 – قضائے حاجت ( پيشاب اور پاخانہ ) كرتے وقت قبلہ رخ نہ ہونا ( مسلمانوں كا قبلہ وہ كعبہ ہے جسے ابراہيم عليہ السلام نے اللہ تعالى كے حكم سے مكہ مكرمہ ميں تعمير كيا تھا ) اور يہ قبلہ كے احترام اور اللہ تعالى كے شعائر كى تعظيم ميں سے ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جب كوئى قضائے حاجت كے ليے بيٹھے تو وہ قبلہ رخ نہ ہو اور نہ ہى قبلہ كى طرف پيٹھ كرے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 389 ).
2 – پيشاب كرتے وقت عضو تناسل كو دائيں ہاتھ سے نہ پكڑے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم ميں سے كوئى پيشاب كرے تو اپنا عضو تناسل اپنے دائيں ہاتھ سے نہ پكڑے، اور نہ ہى اپنے دائيں ہاتھ سے استنجاء كرے، اور نہ ہى برتن ميں سانس لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 150 ).
3 – دائيں ہاتھ سے نجاست زائل نہ كرے، بلكہ نجاست زائل كرنے كے ليے اپنا باياں ہاتھ استعمال كرے، اس كى دليل مندرجہ بالا حديث ہے، اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جب كوئى پونچھے تو اپنے دائيں ہاتھ سے نہ پونچھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5199 ).
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوى ام المؤمنين حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنا داياں ہاتھ كھانے پينے اور وضوء كرنے اور لباس پہننے، اور لينے دينے كے ليے اور اس كے علاوہ ميں اپنا باياں ہاتھ استعمال كرتے تھے "
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے، اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 4912 ) ميں ہے.
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى قضائے حاجت كے بعد صفائى كرے تو اپنے دائيں ہاتھ نہ كرے، اسے چاہيے كہ وہ اپنے بائيں ہاتھ سے استنجاء كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 308 ) صحيح الجامع حديث نمبر(322 )
4 – سنت يہ ہے كہ قضائے حاجت بيٹھ كر كى جائے، اور زمين كے قريب ہو كيونكہ اس ميں پردہ زيادہ ہے، اور پيشاب كے چھينٹے پڑنے سے بھى زيادہ بچاؤ ہوتا ہے، اس كا بدن اور لباس گندا نہيں ہوتا، اور اگر اس سے محفوظ رہتا ہو تو كھڑے ہو پيشاب كرنا جائز ہے.
5 – قضائے حاجت كرتے وقت لوگوں كى آنكھوں سے اوجھل ہو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قضائے حاجت كرتے وقت كسى اونچى جگہ يا كھجوروں كے باغ ميں چھپنا پسند كرتے تھے.
صحيح مسلم حديث نمبر ( 517 ).
اور اگر انسان كھلى جگہ ہو اور قضائے حاجت كرنا چاہے اور وہاں چھپنے كے ليے كچھ بھى نہ ہو تو اپنے ارد گرد والے لوگوں سے دور اور انكى آنكھوں سے اوجھل ہو جائے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں ايك سفر ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قضائے حاجت كى ضرورت پڑى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہت دور چلے گئے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 20 ) امام ترمذى كہتے ہيں يہ حديث حسن صحيح ہے.
اور عبد الرحمن بن ابى قراد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ قضائے حاجت كے ليے گيا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عادت تھى كہ جب قضائے حاجت كرنا چاہتے تو بہت زيادہ دور نكل جاتے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 16 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 4651 ).
6 – زمين كے قريب ہو كر ستر ننگا كرے، كيونكہ اس ميں ستر پوشى زيادہ ہوتى ہے، انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قضائے حاجت كرنا چاہتے تو اپنا كپڑا زمين كے قريب ہونے سے قبل نہ اٹھاتے تھے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 14 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 4652 ).
اور اگر ليٹرين ميں ہو تو دروازہ بند كرنے اور ديكھنے والوں كى نظروں سے اوجھل ہونے سے قبل كپڑا نہ اٹھائے.
محترم سائل اس اور اس سے پہلے والے نقطہ سے آپ يہ معلوم كر سكتے ہيں كہ يورپى اور دوسرے ممالك ميں اكثر لوگ كھڑے ہو كر مكشوف جگہ ميں ايك دوسرے كے قريب ہى پيشاب كرتے ہيں جو كہ ادب اور شرم و حياء اور عزت و حشمت اور اخلاق كريمہ كے منافى ہے، ہر سليم الفطرت اور صحيح العقل شخص كا بدن اس سے كانپ جاتا ہے، كہ كوئى شخص لوگوں كے سامنے كس طرح اپنى شرمگاہ كھول كر كھڑا ہو جاتا ہے جسے اللہ تعالى نے اس كى دونوں ٹانگوں كے درميان چھپا كر ركھا ہے اور اسے چھپانے كا حكم بھى ديا ہے، بشريت كے عقل مندوں كے ہاں اسے چھپا كر ركھنے كا معاملہ استقرار پا چكا ہے.
اسى طرح ان ليٹرينوں كا اس قبيح اور گندى شكل ميں بنانا بھى اصل ميں ايك غلطى ہے جسے استعمال كرنے والے ايك دوسرے كى شرمگاہ كو ديكھتے ہيں، اور پيشاب كرتے ہوئے وہ جانوروں كو بھى پيچھے چھوڑ ديتے ہيں جن كى عادت ہے كہ پيشاب اور پاخانہ كرتے وقت چھپ جاتے ہيں.
7 – مسلمانوں كے ہاں قضائے حاجت كے ليے بيت الخلاء ميں داخل ہونے اور باہر آنے كے كچھ شرعى آداب اور معلوم دعائيں ہيں جو كہ حالت اور مكان كى بالكل مناسب ہيں، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ تعليم دى ہے كہ جب بھى ہم ميں سے كوئى قضائے حاجت كے ليے جائے تو وہ درج ذيل كلمات كہے:
" بسم الله، اللهم إني أعوذبك من الخبث و الخبائث "
اللہ تعالى كے نام سے داخل ہوتا ہوں، اے اللہ ميں خبيث جنوں اور جننيوں سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں.
تو اس طرح وہ ہر خبيث اور گندى چيز اور ہر شيطان جنى اور جننى سے اللہ كى پناہ طلب كرتا ہے، اور جب بيت الخلاء سے خارج ہوتا ہے تو " غفرانك " كہہ كر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرتا ہے.
8 – قضائے حاجت سے فارغ ہونے كے بعد نجاست كو زائل كرنا اور اسے صاف كرنے كا خيال ركھنا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پيشاب سے پاكى حاصل كرنے ميں سستى و كاہلى كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" قبر كا اكثر طور پر عذاب پيشاب كى بنا پر ہوتا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 342 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 1202 ).
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے تو فرمانےلگے:
" ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور انہيں كوئى بڑى چيز كى بنا پر عذاب نہيں ديا جا رہا، ان ميں سے ايك تو پيشاب كے چھينٹوں سے احتراز نہيں كرتا تھا، اور دوسرا غيبت اور چغلى كيا كرتا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5592 ).
9 – نجاست كو تين بار دھويا يا پونچھا جائے، يا پھر تين بار كے بعد حسب ضرورت پانچ يا سات بار، اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى مقعد ( پاخانہ والى جگہ ) تين بار دھويا كرتے تھے "
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: ہم نے بھى اس پر عمل كيا تو ہم نے اسے علاج اور پاكيزگى پايا "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 350 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 4993 ).
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى شخص مٹى كے ڈھيلے يا پتھر سے استنجاء كرے تو طاق استعمال كرے "
اسے امام احمد نے مسند احمد ميں روايت كيا ہے، اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 375 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
يعنى ايك تين پانچ سات پتھر استعمال كرے.
10 – استنجاء كرنے ميں ہڈى اور گوبر اور ليد استعمال نہ كرے، بلكہ وہ ٹشو پيپر يا پتھر يا مٹى وغيرہ استعمال كرے كيونكہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے:
كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ان كى قضائے حاجت كے بعد استعمال كرنے كے ليے پانى كا برتن اٹھا كر لے كر گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہنے لگے: يہ كون ہے ؟
ميں نے عرض ابو ہريرہ رضى اللہ عنہ ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مجھے پتھر لا كر دو تا كہ ميں استنجاء كروں، مجھے نہ تو ہڈى لا كر دينا، اور نہ ہى ليد اور گوبر، تو ميں اپنے كپڑے كے كنارے ميں پتھر لايا اور انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پہلو ميں ركھ كر چلا گيا اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فارغ ہوئے تو ميں نے جا كر كہا: ہڈى اور ليد اور گوبر كا معلق كيا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ دونوں چيزيں جنوں كا كھانا ہيں … الحديث .
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3571 ).
11 – انسان كھڑے پانى ميں پيشاب نہ كرے، اس كى دليل درج ذيل روايت ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھڑے پانى ميں پيشاب كرنے سے منع فرمايا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 423 ).
اور اس ليے بھى كہ ايسا كرنے سے پانى گندا ہو جاتا ہے، اور پانى استعمال كرنے والوں كے ليے اذيت و تكليف كا باعث بنتا ہے.
12 – لوگوں كے راستے ميں پيشاب نہ كيا جائے، اور نہ ہى سائے ميں جہاں لوگ بيٹھتے ہوں، كيونكہ ايسا كرنے ميں لوگوں كے ليے اذيت و تكليف كا باعث ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دو لعنت والى چيزوں سے بچو، صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم دو لعنت والى كونسى چيز ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: وہ شخص جو لوگوں كے راہ يا ان كے سائے ميں قضائے حاجت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 23 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 110 ).
13 – قضائے حاجت كرنے والے شخص كو سلام نہ كيا جائے، اور نہ ہى وہ شخص قضائے حاجت والى جگہ ميں سلام كا جواب دے، كيونكہ گندى جگہوں پر اللہ تعالى كا ذكر نہيں كيا جاتا.
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سےگزرا اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پيشاب كر رہے تھے اس شخص نے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" جب تم مجھے اس طرح كى حالت ميں ديكھو تو مجھے سلام مت كہو، كيونكہ اگر تو ايسا كريگا تو ميں تجھے سلام كا جواب نہيں دونگا "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر( 346 ) صحيح الجامع حديث نمبر( 575 )
جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ قضائے حاجت ميں بغير ضرورت بات چيت كرنى مكروہ ہے.
اس موضوع كے متعلقہ شريعت اسلاميہ ميں چند ايك آداب تھے جو مندرجہ بالا سطور ميں بيان ہوئے ہيں، جو ہر انسان كے ساتھ روزانہ پيش آتے ہيں اس ليے شريعت اسلاميہ نے ان كا خاص خيال ركھا ہے، اور ان آداب كو مكمل طور پر بيان بھى كيا ہے، تو پھر ان سے بڑے اور اہم آداب كا حال كيا ہوگا.
سائل محترم كيا آپ كو پورى دنيا ميں كسى دوسرے ايسے دين كا علم ہے جو اس طرح كے آداب لايا ہو ؟
اللہ كى قسم يہ دين كمال اور حسن و بہترى اور اس كى پيروى واجب ہونے كے اعتبار سے كافى ہے.
ہم اللہ تعالى سے اپنے اور آپ كے ليے ہر قسم كى بھلائى اور حق كى طرف راہنمائى و ہدايت كى توفيق نصيب فرمائے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتوں كا نزول كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد