میری آپ سے درخواست ہے کہ میری بیوی کے ساتھ میرے مسئلے کی وضاحت کر دیں، ہوا یوں کہ ماہواری ختم ہونے کے بعد میری اپنی اہلیہ سے شدید لڑائی ہوئی، ماہواری سے فارغ ہونے کے بعد دو دن مسلسل ہم نے تعلقات قائم کیے تیسرے دن لڑائی ہو گئی اور میں نے اسے ایک ہی مجلس میں کہہ دیا: تمہیں 3 طلاقیں دیتا ہوں۔ میری جہالت تھی کہ میں سمجھ رہا تھا کہ ایک طلاق دینے کے لیے تین بار طلاق کا لفظ کہنا ہوتا ہے، تو میری نیت یہ نہیں تھی کہ میں تین طلاق دوں گا، میری نیت یہی تھی کہ میں صرف ایک طلاق دوں گا، دوسری بات یہ ہے کہ میں نے جسمانی تعلقات کے بعد اسی طہر میں طلاق دی تھی تو کیا یہ طلاق ٹھیک ہو گی یا غلط؟ ہم دونوں ہی صلح اور رجوع کرنا چاہتے ہیں، میں نے کچھ جگہوں پر پڑھا ہے کہ ایک ہی مجلس میں 3 طلاق کا لفظ استعمال کرنا ایک ہی طلاق شمار ہوتا ہے، اس لیے ہم رجوع کر سکتے ہیں، پھر میں نے یہ بھی پڑھا کہ جب طہر میں جماع کے بعد طلاق دی جائے تو یہ طلاق صحیح نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی وجہ سے ہماری پوری فیملی میں بہت ہی بے چینی ، پریشانی، اور قلبی رنج پایا جا رہا ہے، ہمارے تین بیٹے ہیں ہمیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے، اس لیے برائے مہربانی ہماری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری رہنمائی کریں۔
ایسے طہر میں تین طلاقیں دیں جس میں ہمبستری کی تھی
سوال: 256423
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
خاوند کا اپنی بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں جماع بھی کیا ہو تو یہ طلاق بدعت ہے، جبکہ سنت طریقہ یہ ہے کہ ایسے طہر میں صرف ایک طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ
ترجمہ: اے نبی ! جب تم بیویوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے آغاز میں طلاق دو۔ [الطلاق:1]
خطیب شربینی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (4/310)میں لکھتے ہیں:
"یعنی اس وقت میں طلاق دو جب ان کی عدت کا آغاز ہو۔" ختم شد
اور یہ تبھی ممکن ہو گا کہ ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں جماع نہ کیا ہو۔
فقہائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ طلاق بدعی واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ تو جمہور اہل علم یہ کہتے ہیں کہ طلاق بدعی واقع ہو جاتی ہے، جبکہ کچھ اس بات کے قائل ہیں کہ طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی، اس موقف کے قائلین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہیں، ان کے اس موقف کے قائلین میں دیگر اہل علم بھی شامل ہیں۔
نیز دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (20/ 58)میں ہے:
"طلاق بدعت کی کئی اقسام ہیں، ایک قسم یہ بھی ہے کہ: انسان اپنی بیوی کو حیض، نفاس یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع بھی کیا ہے۔ اس مسئلے میں صحیح موقف یہ ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔" ختم شد
اس بنا پر اگر آپ نے اپنی اہلیہ کو ایسے طہر میں طلاق دی تھی جس میں جماع کیا تھا تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔
دوم:
ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے ۔
راجح یہ ہے کہ یہ ایک ہی واقع ہوتی ہے چاہے ایک جملے میں تین کا لفظ بولے، مثلاً کہے: تمہیں تین طلاق ۔ یا پھر الگ الگ جملوں میں کہے: طلاق، طلاق، طلاق، چاہے یہ ایک ہی مجلس میں دے یا الگ الگ مجلسوں میں دے، بشرطیکہ درمیان میں رجوع یا عقد جدید نہ ہو، اس موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنایا ہے اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار دیا ہے۔
ان کی دلیل صحیح مسلم: (1472) کی روایت جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں انہیں سوچ و بچار اور تحمل کی ضرورت تھی، اگر ہم اسے ان پر لاگو کر دیں [تو شاید وہ راہ راست پر آ جائیں]تو آپ نے اسے ان پر لاگو کر دیا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ان تمام مسائل میں راجح موقف یہ ہے کہ تین طلاقیں اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتیں جب تک درمیان میں رجوع نہ ہو، یا نیا عقد نہ ہو، اگر رجوع یا نیا عقد نہ ہو تو تین طلاق نہیں ہوں گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے اور یہی صحیح ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (13/ 94)
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں جماع کیا ہوا ہو تو وہ طلاق واقع نہیں ہوتی، اس بنا پر آپ کی طرف سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔
واللہ اعلم
ماخذ:
اللقاء الشھری نمبر ( 17 ) ۔