اول:
عورت کے جسم سے خارج ہونے والا مادہ منی، یا مذی یا عام سی رطوبت ہوتی ہے، اور ان تینوں کے الگ الگ خواص اور احکام ہیں۔
منی کی علامات:
1.ماہیت پتلی اور رنگت زرد ہوتی ہے، یہ علامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مرد کی منی گاڑھی اور سفید ہوتی ہے، جبکہ عورت کی منی پتلی اور زرد ہوتی ہے) مسلم: (311)
ایسا بھی ممکن ہے کہ بعض عورتوں کی منی سفید رنگت کی ہو۔
2. اگر منی تر ہو خشک نہ ہوئی ہو تو پھر اس کی مہک کھجور کے زر دانے جیسی ہوتی ہے، اور کھجور کے زر دانے کی مہک گوندھے ہوئے آٹے جیسی ہوتی ہے، نیز اگر منی خشک ہو تو اس کی مہک انڈے کی سفیدی جیسی ہوتی ہے۔
3.منی خارج ہوتے وقت شہوت کے ساتھ لذت آتی ہے اور محسوس بھی ہوتی ہے، پھر منی خارج ہونے کے بعد شہوت ماند پڑ جاتی ہے۔
جسم سے خارج ہونے والے مادے کو منی قرار دینے کے لئے تینوں علامات کا یکجا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر صرف ایک علامت بھی پائی جائے تو اسے منی قرار دے دیا جائے گا۔ یہ بات امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع (2/141) میں کہی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عورت کی منی پتلی اور زرد رنگ کی ہوتی ہے، البتہ طاقت زیادہ ہونے کی صورت میں سفید بھی ہو سکتی ہے، اس کی دو امتیازی علامتیں ہیں، اگر ایک بھی پائی جائے تو مادہ منویہ کہلائے گا:
پہلی علامت: اس کی بو مرد کی منی جیسی ہوتی ہے [اور وہ گوندھے ہوئے آٹے جیسی ہوتی ہے]
دوسری علامت: اس کے خارج ہونے سے لذت آتی ہے، اور جب نکل جائے تو جسم پر سستی طاری ہو جاتی ہے۔" ختم شد
شرح مسلم ( 3/222 )
مذی کی علامات:
مذی شفاف اور لیس دار مادہ ہوتا ہے، یہ جماع کے خیالات آنے یا جماع کے ارادے پر خارج ہوتا ہے، اس کے خارج ہونے سے لذت نہیں ملتی، نہ ہی اس کے خارج ہونے پر جسم میں سستی آتی ہے۔
مذی کا اخراج مرد اور عورت دونوں کو ہوتا ہے، تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذی کا اخراج عورتوں میں مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے۔
رطوبت کی علامات:
یہ قطرے رحم سے خارج ہونے والے شفاف قطرے ہوتے ہیں ، عورت کو ان کے خارج ہونے کا بسا اوقات احساس بھی نہیں ہوتا، نیز اس رطوبت کے خارج ہونے کی مقدار مختلف خواتین میں الگ الگ ہوتی ہے۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ منی کا معاملہ شکوک و شبہات سے بالا تر ہے؛ کیونکہ ایک تو اس کی الگ سے بو ہوتی ہے نیز منی شہوت اور نکلتے وقت لذت کا باعث بنتی ہے۔
جبکہ مذی اور رطوبت میں سے کسی کی بھی منی والی مہک نہیں ہوتی۔
تاہم مذی خیالات آنے یا نظر پڑنے سے یا اسی طرح کے کسی عوامل سے خارج ہوتی ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ مذی شہوت کے بعد نکلتی ہے، تاہم نکلتے وقت لذت نہیں آتی، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ مذی کے خارج ہونے کا احساس بھی نہ ہو۔
لہذا منی شہوت اور لذت دونوں کے ساتھ نکلتی ہے۔ جبکہ مذی سے پہلے صرف شہوت ہوتی ہے مذی نکلتے ہوئے شہوت یا لذت نہیں آتی۔
جبکہ رطوبت کا معاملہ تو معمول کا ہے کہ اس میں کسی قسم کے خیالات، یا نظر پڑنے یا شہوت کا عمل دخل نہیں ہوتا۔
آپ کے سوال میں جس چیز کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے اکثر اوقات مذی ہی خارج ہوتی رہی ہے؛ کیونکہ مذی اسی وقت خارج ہوتی ہے جب شہوت کو بر انگیختہ کرنے والے خیالات ذہن میں آئیں۔
اور اگر خارج ہونے والے مادے کا تعلق ذہنی خیالات سے نہیں ہے تو پھر وہ عام رطوبت اور قطرے ہیں۔
دوم:
منی پاک اور اس کی وجہ سے غسل کرنا واجب ہوتا ہے۔
جبکہ مذی نجس ہوتی ہے اور اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نیز مذی خارج ہونے سے مذی کو جسم اور کپڑوں سے دھونا لازمی ہے۔
جبکہ رطوبت پاک ہے، تاہم اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
سوم:
اگر انسان کو جسم سے خارج ہونے والے مادے کے بارے میں شک ہو کہ وہ منی تھی یا مذی تو وہ اسے منی یا مذی قرار دے کر اس سے متعلقہ شرعی احکامات لاگو کرے، یہ شافعی فقہائے کرام کا موقف ہے، اور یہ موقف سائلہ کے لئے اور ایسے تمام افراد کے لیے مناسب ہے جو وسوسے کا شکار ہیں۔
مغنی المحتاج : (1/215) میں ہے کہ:
"اگر جسم سے خارج ہونے والے مادے کے متعلق احتمال ہو کہ منی ہے یا ودی ہے یا مذی تو پھر اسے معتمد [شافعی]موقف کے مطابق ان میں سے ایک چیز قرار دے۔ چنانچہ اگر اسے منی قرار دے تو غسل کرے، اور اگر منی قرار نہیں دیتا تو پھر وضو کرے اور جہاں جہاں وہ مادہ لگا ہے اس جگہ کو دھو لے؛ کیونکہ اگر اس شخص نے کسی ایک کے مطابق پورے احکامات لاگو کیے تو اس نے اپنے اوپر عائد ذمہ داری مکمل کر دی ہے، اور یہاں اصل یہی ہے کہ منی یا مذی کسی ایک کے احکامات لاگو کرنے سے وہ بری ہو گیا، اور اس کا کوئی مخالف بھی نہیں ہے" ختم شد
چہارم:
آپ کے سوال سے لگ رہا ہے کہ آپ وسوسوں کی شکار ہیں، ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ آپ وسوسوں سے دور رہیں، اور ان کی جانب بالکل دھیان نہ دیں، آپ اپنے کپڑے نہ چیک کیا کریں اور نہ ہی یہ دیکھیں کہ کچھ نکلا تھا یا نہیں!؟ وسوسے کی صورت میں شرعی مشورہ یہ ہوتا ہے کہ وسوسے میں مبتلا شخص اپنی شرمگاہ اور داخلی کپڑوں پر پانی کے چھینٹے مار لے، تو اگر اسے گیلا پن نظر بھی آئے تو وہ یہی سمجھے گا کہ یہ پانی کے چھینٹوں کے نشان ہیں، تو اس طرح ان شاء اللہ وسوسوں سے جان چھوٹ جائے گی۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر مذی عارضے کی وجہ سے نکلتی ہے تو اس کا علاج کریں وہ اس طرح کہ: استنجا کرتے ہوئے مذی کی جگہ دھو دیں، اور وضو کے وقت شرمگاہ کے آس پاس بھی پانی کے چھینٹے ماریں، اور پھر جو رطوبت کے نشان نظر آئیں تو انہیں پانی کے چھینٹے ہی سمجھیں، یہاں تک کہ آپ کو جسم سے مذی خارج ہونے کا عین الیقین ہو جائے ۔
لیکن اگر آپ کو معمولی سا بھی شک ہے تو اس کی طرف بالکل بھی دھیان نہ دیں، نہ ہی اپنی شلوار کو ٹٹولیں، اور نہ ہی کسی جگہ رطوبت تلاش کریں۔
اگر نکلنے والی رطوبت مسلسل ہی نکلتی رہتی ہے تو پھر یہ سلس البول کا حکم رکھتی ہے، تو آپ جب بھی نماز کا وقت ہو تو وضو کر لیں اور پھر مذی نکلتی بھی رہے تو نماز پڑھ لیں۔
لیکن اگر مذی گھر سے باہر ہوتے ہوئے کبھی کبھار نکلتی ہے تو اس کا حکم پیشاب اور ہوا خارج ہونے والا ہے، یعنی مذی خارج ہوئی تو وضو ٹوٹ گیا، اور اگر نہ نکلی تو الحمد للہ وضو باقی ہے۔
اور آپ چونکہ وسوسوں میں مبتلا ہیں، اس لیے اگر 100 میں ایک فیصد بھی شک ہو تو اس رطوبت کی جانب بالکل بھی دھیان نہ دیں، اور اسے وسوسہ قرار دے کر چھوڑ دیں۔" ختم شد
مجموع فتاوى ابن باز " (29/ 20)
واللہ اعلم