سوال: ہم نے دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و الافتاء کا فتوی پڑھا ہے اور وہ سوال نمبر: (8580) میں موجود ہے کہ رکوع کے دوران نمازی سجدے کی جگہ دیکھے، کیا اس بات کی کوئی دلیل موجود ہے؟
رکوع کی حالت میں سجدہ کی جگہ پر نظر رکھنے کی کیا دلیل ہے؟
سوال: 25848
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
دورانِ نماز نظریں سجدے کی جگہ رکھنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کی وضاحت بہت سی صحیح احادیث میں موجود ہے، جن میں مکمل نماز کے دوران یہی کیفیت وارد ہے، چنانچہ دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام نے درج ذیل احادیث کی وجہ سے یہ موقف اختیار کیا ہےجو کہ سوال نمبر: (8580) میں بیان کیا گیا ہے:
ابن حبان: (4/332) اور حاکم : (1/652) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ کی نظریں باہر آنے تک سجدہ والی جگہ پر ہی ٹکی رہیں” اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے “صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم” میں اسے صحیح کہا ہے۔
اس بارے میں سلف کے ہاں امام عبد الرزاق صنعانی رحمہ اللہ کے آثار “مصنف” میں ذکر کیے ہیں ، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مسلم بن یسار سے استفسار کیا: “نماز میں نظر کہاں تک جانی چاہیے؟ ” تو انہوں نے کہا: “جہاں تم سجدہ کرتے ہو وہاں بہتر ہے”
2-ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ انہیں نماز کے دوران سجدہ کی جگہ سے نظر آگے بڑھانا درست نہیں لگتاتھا۔
3-ابن سیرین کہتے ہیں کہ انہیں یہ بات پسند ہے کہ نمازی اپنی نظریں سجدے کی جگہ پر رکھے۔
” مصنف عبد الرزاق ” ( 2 / 163 )
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا جو موقف ہے وہ جمہور اہل علم سے لیا گیا ہے، جس میں ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد شامل ہیں، تاہم کچھ اہل علم نے تشہد کی حالت میں کہا ہے کہ اپنی شہادت والی انگلی کی طرف دیکھے، تشہد کے بارے میں یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
چنانچہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تو اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی ران پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے، آپ کی نظریں انگلی سے تجاوز نہیں کرتی تھیں۔
ابو داود ( 990 ) ، نسائی ( 1275 ) – الفاظ نسائی کے ہیں- نووی رحمہ اللہ نے اسے ” شرح مسلم ” ( 5 / 81 ) میں اسے صحیح کہا ہے، نیز یہ بھی لکھا: “سنت یہی ہے کہ نظریں شہادت کی انگلی سے تجاوز نہ کریں، اور اس بارے میں ایک صحیح حدیث سنن ابو داود میں ہے”
کچھ اہل علم نے فرمانِ باری تعالی ( فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) اپنا چہرہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں۔[البقرة :44] سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ نمازی کو سامنے دیکھنا چاہیے سجدے کی جگہ پر نہیں دیکھنا چاہیے، لیکن یہ موقف راجح نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
نمازی کیلئے نظریں سجدہ کی جگہ پر رکھنا مستحب ہے، امام احمد -حنبل کی روایت کے مطابق- کہتے ہیں: “نماز میں خشوع یہ ہے کہ اپنی نظریں سجدہ کی جگہ پر رکھیں، یہی موقف مسلم بن یسار اور قتادہ سے بھی منقول ہے”
“المغنی”: (1/370)
دوم:
صحیح احادیث کے مطابق رکوع کرنے والے کیلئے مستحب عمل یہ ہے کہ سر کو زیادہ بلند نہ کرے اور نہ بالکل جھکائے، بلکہ سر کمر کے برابر ہونا چاہیے۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا تکبیر سے کرتے اور قراءت کی ابتدا سورہ فاتحہ سے کرتے، اور جس وقت آپ رکوع فرماتے تو اپنا سر بالکل بلند کرتے اور نہ ہی مکمل جھکاتے ، بلکہ میانہ روی اختیار کرتے” مسلم: (498)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ رکوع کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رکوع کرنے والے کیلئے کمر کو سیدھا کرنا مستحب عمل ہے:
آپ کہتے ہیں: “اپنی کمر کو سیدھا کرتے ، اور کمر کو سیدھا کرنے میں کمر لمبی کرنا اور نہ زیادہ بلند کرنا اور نہ ہی بالکل جھکا لینا شامل ہے، یعنی اپنی کمر کو گول نہ کرتے اور نہ کمر کے درمیانی حصے کو زمین کی طرف موڑتے، اسی طرح اپنے کمر کے اگلے حصے کو نہ ہی جھکاتے، بلکہ اپنی کمر سیدھی رکھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: “جب آپ رکوع کرتے تو اپنا سر نہ بلند کرتے اور نہ ہی جھکاتے” بلکہ اس کے درمیان رہتے” انتہی
” الشرح الممتع ” ( 3 / 90 )
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات